ان کی نظروں میں ہمارے بام در آتے نہیں
چشم اہل ذر میں اب مفلس کے گھر آتے نہیں
گاؤں میں درویش نے بارہا مجھ سے کہا تھا
جتنے اونچے پیڑ ہیں اتنے ثمر آتے نہیں
چل پڑے ہیں ننگے پاؤں ریگزر عشق میں
دشت کا ہے یہ سفر راہ میں شجر آتے نہیں
آج بھی زخموں سے چور ہیں غریبوں کے بدن
زخم پھر بھی چارہ زارؤں کو نظر آتے نہیں
بے ہنر سے جیت بھی جائیں تو کیا حاصل ہمیں
جب مقابل اہل فن اہل ہنر آتے نہیں
راستہ ان کا کیا دیکھتا ہے بے جان سعادت
جو چلے جاتے ہیں واپس لوٹ کر آتے نہیں