جہاں مخصوص ایام کے دوران اور بچے کی پیدائش پر عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے

image
پاکستان کے ضلع چترال کے علاقے کیلاش میں خواتین کو حیض کے دوران اور بچے کی پیدائش کے بعد گاؤں کے باہر ہے الگ رہائشی مقام پر جا کر رہنا پڑتا ہے۔ 'اگر آپ بشالی میں چلی گئیں تو پھر آپ گاٶں میں نہائے بغیر داخل نہیں ہو سکتی۔' ضلع چترال کے علاقے کیلاش کی وادی بمبوریت کی ایک عمارت کے گیٹ پر بہت سی لڑکیاں بات چیت کرتی دکھائی دیں۔ یہ وہاں موجود گھروں اور ہوٹلوں سے کچھ مختلف عمارت لگی جس کی پیشانی پر ایک سیاہ تختی پہ لکھا تھا ’خبردار! بشالی کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے۔‘ وہاں عورتوں کی قاضی، بٹ خیلی بی بی نے شناخت اور مقصد پوچھنے کے بعد اجازت دے دی۔ اندر گئی تو استقبال مسکراہٹ اور شپاتا (سلام) کے ساتھ کیا گیا۔ پتھر اور لکڑی سے بنی لگ بھگ 15 سے 20 مرلے کی اس پختہ عمارت میں عورتیں، لڑکیاں اور کچھ شیر خوار بچے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں مرد کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتے۔ پچھواڑے اور اطراف میں بیرونی دیواروں کے بجائے ڈھائی فٹ اونچی پتھر کی باؤنڈری بنی تھی۔ نیچے سے گزرتی ندی کا منظر اور ارد گرد کا سبزہ ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔ تین کمرے،کچن اور واش رومز کے علاوہ یہاں زیادہ تر حصہ پختہ فرش اور کہیں کہیں گھاس سے ڈھکا ہوا تھا مخصوص ثقافت، الگ مذہب کے ماننے والے کیلاشیوں کی کل آبادی 4000 افراد پر مشتمل ہے۔

وہ اپنے گاؤں کو ’اونجسٹہ‘ کہتے ہیں یعنی پاک جگہ اور بشالی ’پرگاتہ‘ یعنی ناپاکی کی حالت میں عورتوں اور لڑکیوں کو یہاں آنا پڑتا ہے۔

عموماً ان وادیوں میںزیادہ تر کیلاشیوں کے گھر اوپر کی جانب ہوتے ہیں اور بشالی کو کلاشہ گاؤں کے ذرا باہر بنایا جاتا ہے۔ اس جانب آپ کو مسلمانوں کے گھر بھی ملیں گے جن میں اکثریت ان کی ہے جو پہلے کیلاشہ مذہب کے پیروکار تھے۔ وہاں مجھے صحن میں موجود لڑکیاں اور عورتیں گپ شپ کے ساتھاپنے روایتی کپڑے اور زیورات تیار کرنے میں مصروف نظر آئیں، کچھ بدستور لکڑی کے گیٹ سے آگے موجود رکاوٹ کے پار کھڑے ملاقاتیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔ لیکن کچھ خواتین کو میں نے بشالی سے باہر جاتے بھی دیکھا جہاں گاؤں کی عورتیں کپڑے اور سر دھونے کے لیے جاتی ہیں۔ اس بارے میں مزید پڑھیے کیلاش کے نام زندگی کر دی 'کیلاش قبیلے کو اکثر اوقات شیڈول کاسٹ میں شمار کیا جاتا ہے' چترال میں پہلی مرتبہ خواتین بھی جنگلات کی رائلٹی میں حصہ دار تو پھر یہ پابندی کیسی ہے جب عورتیں اس عمارت سے باہر بھی جا سکتی ہیں؟ کلاشہ قوانین اور وادی میں نظر نہ آنے والی ان منقسم لکیروں اور پابندیوں کو سمجھنے میں مجھے وہاں سے گھر واپسی کی تیاری میں مصروف لینا اور ایسٹر سے بہت مدد ملی۔ لینا نے بتایا کہ اصل پابندی گاؤں کے اندر جانے اور یہاں کے مکینوں اور درو دیوار کو چھونے پر عائد ہے۔

'بشالی کی دیوار کو لوگ چھوتے نہیں ہیں۔ اسے چھونا منع ہوتا ہے۔ اور جو ہمارے رشتہ دار ہیں ماں، باپ اور بہن بھائی، وہ بھی ان دیواروں کو چھو نہیں سکتے۔ نہ ہمیں چھو سکتے ہیں۔ جب کوئی چیز لاتے ہیں تو بنا چھوئے پکڑاتے ہیں۔' جیسے ہی کسی عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ پہلے دس دن بشالی میں گزارتی ہے پھر گھر چلی جاتی ہے۔ لیکن مکمل پاکی حاصل کرنے تک وہ گھر کا واش روم استعمال نہیں کر سکتی۔ پہلے پہل تو درد کے ساتھ ہی عورت کو

گاؤں سے باہر نکل کر بشالی پہنچنا ہوتا تھا لیکن اب وہ ڈسپینسری یا شہر بھی چلی جاتی ہیں۔

اسی طرح جب لڑکی بالغ ہو جاتی ہے تو پھر اسے گھر میں بال دھونا بھی ممنوع ہو جاتا ہے۔ لینا کے مطابق 'بشالی کے ساتھ ہی نیچے ندی بہتی ہے ہم گھر میں نہا تو سکتے ہیں لیکن سر نہیں دھو سکتے۔ ہم اس جگہ کو 'گا' کہتے ہیں یہاں ہم اپنے کپڑے بھی دھوتے ہیں اور بال بھی۔‘ وہاں آپ کو کھلے بالوں میں عورت دکھائی نہیں دے گی وہ گیلے بالوں میں ہی بل ڈال لیتی ہیں۔ بشالی

BBC

You May Also Like :
مزید