فیض آباد دھرنا کیس کمیشن رپورٹ میں کیا ہے اور چیف جسٹس اس سے مایوس کیوں ہیں؟

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر قائم انکوائری کمیشن کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ اس کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘
فیض آباد
Getty Images

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے سنہ 2017 میں اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے معاملے پر قائم انکوائری کمیشن کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ اس کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘

پیر کے روز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی جس دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اس ضمن میں بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

عدالت عظمیٰ نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ کمیشن کی رپورٹ کو ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فیض آباد دھرنا کیس پر عمل کرتے تو شاید نو مئی کے واقعات نہ ہوتے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی)نے ختم نبوت کے حلف نامے میں مبینہ متنازع ترمیم کے خلاف پانچ نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کروانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا گیا تھا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔

یہ دھرنا دراصل 22 ستمبر 2017 کو سینیٹ کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے بل میں ختم نبوت کے معاملے پر اس وقت کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی جانب سے ’غلطی‘ کی نشاندہی پر دیا گیا تھا۔

بعدازاں حکومت نے اس بل میں ترمیم کر کے اس کو دوبارہ پیش کیا گیا تھا تاہم تحریک لبیک کی قیادت اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے خلاف کارروائی پر بضد تھی۔

اس جماعت کی قیادت نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کر رکھی تھی جس میں ان شخصیات پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ احمدیوں کے لیے ’نرم گوشہ‘ رکھتے ہیں۔

آج کی سماعت کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے اور سپریم کورٹ اس رپورٹ سے مایوس کیوں ہے؟

فیض آباد دھرنا کیس کی انکوائری کمیشن رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

سپریم کورٹ میں پیش کردہ فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس معاہدے پر بطور ثالث حکومت اور مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان( ٹی ایل پی) کے درمیان مذاکرات میں کردار ادا کیا تھا اور ایسا انھوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی اجازت سے کیا تھا۔

یاد رہے کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے فوج کے کردار پر اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا تھا کہ فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل فیض حمید نے کیسے معاہدہ کر لیا؟

اس کمیشن کی عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اس بات کی تصدیق اس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے بھی کی ہے تاہم رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سویلین معاملات میں فوج یا اس سے منسلک ادارے کی شمولیت ادارے کی ساکھ پر برے اثرات ڈالتی ہے۔

فیض آباد دھرنے سے متعلق کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’فوج ریاست کا مقدس بازو ہے اس لیے تنقید سے بچنے کے لیے اسے عوامی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اس کے لیے آئی بی اور ضلعی انتظامیہ کو کردار ادا کرنا چاہیے۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت کے چیئرمین پیمرا ابصار عالم کی جانب سے لگایا گیا الزام کہ ان پر جنرل فیض حمید کی جانب سے 92 نیوز کو بحال کرنے کا دباؤ ڈالا گیا تھا کی تصدیق نہیں کی جا سکی اور کمیشن کو موجودہ چیئرمین پیمرا اور 92 نیوز کے مالک نے بتایا ہے کہ چینل کو علیحدہ سے بندش کا سامنا نہیں تھا بلکہ اسے تمام دیگر چینلز کے ساتھ بند کیا گیا تھا اور ایسا وفاقی حکومت کے احکامات پر کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق جب کمیشن نے جنرل فیض حمید سے پوچھا کہ کسی بھی انٹیلیجنس ایجنسی کی سب سے اہم ذمہ داری دہشتگردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنا ہے۔ تاہم اس بارے میں جنرل فیض حمید نے کہا کہ نہ مالیات کی مانیٹرنگ آئی ایس آئی کا مینڈیٹ نہیں ہے اور ٹی ایل پی کے مالی معاملات کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن کو یہ جواب تسلی بخش نہیں لگا کیونکہ پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے اور دہشتگردوں کی مالی معاونت کے خلاف کامیاب پالیسی بنانے پر ہی اسے سنہ 2022 میں فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالا گیا تھا۔

کمیشن کی جانب سے یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ جہاں اس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیرِ اعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد اور وزیرِ داخلہ احسن اقبال سمیت دیگر کے بیانات میں یہ مشترکات پائے جاتے ہیں کہ ان کی جانب سے اس وقت پنجاب حکومت جس کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف تھے کو بارہا یہ درخواست کی گئی تھی کہ مظاہرین کو پنجاب کی حدود میں ہی روکا جائے اور اسلام آباد نہ آنے دیا جائے تاہم پنجاب حکومت اس بات پر اسرار کرتی رہی کہ مظاہرین کو اسلام آباد جانے دیا جائے اور آخر کار وہ کامیاب ہو گئے۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر قائم کیے گئے اس انکوائری کمیشن نے 15 نومبر 2023 میں اپنا کام شروع کیا تھا اور سپریم کورٹ نے دو مرتبہ انکوائری کمیشن کو ایک ایک ماہ کی توسیع دی تھی لیکن اس کے باوجود بھی وفاقی حکومت کی طرف سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جع نہیں کروائی جا رہی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ آبزرویشن دی تھی کہ جب اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ مکمل ہو کر سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی تو اس کے بعد ہی فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف نطرثانی کی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

اس انکوئری کمیشن کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ان عوامل کی نشاندہی کریں جو فیض آباد دھرنے کے پیچھے کار فرما تھے۔

تاہم پیر کو ہونے والی سماعت میں اس انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ آئیے پہلے جانتے ہیں کہ وہ اعتراضات کیا ہیں۔

سپریم کورٹ کو کمیشن کی رپورٹ پر اعتراضات کیا ہیں؟

پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر اعوان پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس پر سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق کمیشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کے ذہن میں کیا تھا، کیونکہ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اُن کی ذمہ داری کیا تھی۔

چیف جسٹس نے کمیشن کی رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے، یہ اخبار کا آرٹیکل لگتا ہے، کمیشن کو دیا گیا کام یہ نہیں تھا۔ یہ کمیشن والے تو لگتا ہے اپنے آفس سے باہر نکلے ہی نہیں۔‘

عدالت نے کمیشن کی رپورٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بظاہر کمیشن نے یہ رپورٹ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر تیار کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انھیں یہ رپورٹ پڑھ کر مایوسی ہوئی اور بظاہر یہ کمیشن وقت ہی ضائع کرتا رہا ہے۔ انھوں نے استفسار کیا کہ بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟

عدالت اعظمیٰ نے کمیشن کی رپورٹ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے دھرنے کے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔ کمیشن یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا، کمیشن کی تمام توجہ صرف اس بات پر تھی کہ مظاہرین کو پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا گیا، کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’کمیشن کو کس بات کا خوف تھا اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انکوائری کمیشن کو پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت کی پنجاب حکومت کے خلاف لکھی گئی ہے اور اس میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی ہے۔‘

عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ میں پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کو بری کیے جانے پر کہا کہ ’آؤٹ آف دی وے جا کر اس جنٹلمین کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟ بظاہر کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’کیا حسن اتفاق تھا کہ اتنی نظرِ ثانی درخواستیں دائر ہوئیں۔ کسی نے نظرِ ثانی کی منظوری دی ہو گی وکیل کیا ہو گا ساری پیپر ٹریل کدھر ہے؟ یہ بہت ہی مایوس کن ہے، کیوں ملک کا وقت ضائع کیا۔ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟‘

faizabad
Getty Images

عدالت عظمیٰ نے کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ میں اس دھرنے میں شریک مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے بھی تفتیش نہ کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ’شاید ٹی ایل پی والے ان کی معاونت کر دیتے۔ ان کو بلاتے ہوئے انھیں ڈر لگ رہا تھا۔ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا مؤقف لے لیتے۔ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا۔ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پر امن مظاہرین نہیں تھے۔‘

عدالت عظمی کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیشن 12 مئی کو اور بعد والے دھرنے کو گول کر گیا۔‘ جس پراٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’گول تو وہ اس ٹی ایل پی والے دھرنے کو بھی کر گئے۔‘‘

چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کمیشن کی رپورٹ پرمزید کہا کہ ’کمیشن لکھتا ہے فوج کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے تو پھر معاہدے پر دستخط کیوں کیے گئے۔‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمیشن کو فریم ورک کی سفارشات کا کہا تھا، مگر وہ نہیں دی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو شاید نو مئی کے واقعات بھی نہ ہوتے۔

کیا حکومت کمیشن کو نظر ثانی کا کہہ سکتی ہے؟

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن ایک مرتبہ ایک رپورٹ کو حتمی شکل دے دے تو پھر حکومت وقت کے پاس یہ کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس کمیشن کو اپنی فائنڈنگز پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کا کہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے قبل جون 2014 میںماڈل ٹاون واقعہ سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اس واقعہ سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کردی تھی۔

شاہ خاور کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت نے ایک نئی کمیٹی بنائی تھی جس نے ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لے کر کچھ ترامیم کی تھیں لیکن ان کی کوئی حثیت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن اپنا فیکٹ فائنڈنگز دیتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان کی سفارشات پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔

فیض آباد دھرنا کیا تھا اور اس پر کمیشن کیوں بنایا گیا تھا؟

فیض آباد دھرنا
BBC

پانچ نومبر 2017 کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کروانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیرِ بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

حکومت کی جانب سے اس حوالے سے سنہ 2023 میں تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، دو ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل تھے۔

ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا تھا۔

بعد ازاں اس وقت سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سات فروری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے 2017 میں فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ’کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو‘ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مقدمہ چلایا جائے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.