’جنگلات کی ماں‘ کہے جانے والے درخت باؤباب کئی سو سال پُرانے ہیں۔ ان پر جہاں پرندے اپنے گھونسلے بنا کر بے فکر ہو جاتے ہیں تو وہیں ان پر لگنے والا پھل بھی سُپر فوڈ کہلاتا ہے۔
سائنسدانوں نے قدیم باؤباب کے درختوں کی ابتدا کا معمہ حل کر لیا ہے۔
ڈی این اے کے مطالعے کے مطابق یہ مشہور درخت سب سے پہلے مڈغاسکر میں 21 ملین سال پہلے ابھرے تھے۔
اس کے بعد ان کے بیج سمندری لہروں کے ذریعے آسٹریلیا اور براعظم افریقہ تک پہنچے، جہاں یہ مختلف انواع میں سامنے آئے اور ان کی متعدد اقسام بھی دیکھی گئیں۔
محققین نے ان درختوں کے تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششوں اور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان درختوں کو پہلے سے کہیں زیادہ معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔
باؤباب کو ان کی عجیب و غریب شکل و صورت اور لمبی عمر کی وجہ سے ’دا ٹری آف لائف‘ یا ’الٹا درخت‘ کہا جاتا ہے۔
یہ نایاب درخت آب و ہوا میں غیر معمولی تبدیلی اور وسیع پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے شدید خطرے میں ہیں۔
رائل بوٹینک گارڈنز، کیو، لندن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایلیا لیچ نے اپنے شوہر اور انگلینڈ کی کوئین میری یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو لیچ کے ساتھ مل کر ایک تحقیق پر کام کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم باؤباب کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو ایک اہم اور مشہور نسل میں سے ہے جو جانوروں اور پودوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے وسیع تنوع کی حمایت کی گواہی بھی دیتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اور اب تک سامنے آنے والے اعداد و شمار نے ہمیں یہ موقعہفراہم کیا ہے کہ ہم ان کے تحفظ اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کر سکے گی۔‘
محققین نے باؤباب کی آٹھ اقسام کا مطالعہ کیا، جن میں سے چھ مڈغاسکر میں، ایک افریقہ میں اور ایک شمال مغربی آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔
ماہرین نے معدومیت کے خطرے سے دو چار ’مالاگاسی‘ نسل کے باؤباب درخت، جو مڈغاسکر میں پائے جاتے ہیں، کے لیے خصوصی اقدامات کا مطالبہ کیا۔
باؤباب دنیا کے سب سے قابل ذکر درختوں میں سے ایک ہیں اور مقامی ثقافتوں اور روایات کے ساتھ ان کی بہت گہری وابستگی ہے۔
انھیں ملاگاسی زبان میں ’جنگل کی ماں‘، ’الٹا درخت‘ اور ’زندگی کا درخت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
درخت ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ قدامت یا سائز میں یہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ خشک اور سخت موسمی حالات میں بھی زندہ رہنے کے لیے اپنے تنوں میں بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے پھلوں کو سپر فوڈ سمجھا جاتا ہے اور اس کے تنے کو ریشے بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے رسی، دھاگے یا کپڑے بنائے جاتے ہیں۔
باؤباب کے ان خوبصورت درختوں پر انتہائی دلفریب بڑے سفید پھول لگتے ہیں جن کی خاصیت یہ ہے کہ وہ شام کے وقت میں کھلتے ہیں، چمگادڑوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں اور پرندوں کے لئے گھونسلوں کے لیے انتہائی محفوظ مقام بھی سمجھا جاتا ہے۔
یہ تحقیق ووہان بوٹینک گارڈن (چین)، رائل بوٹینک گارڈن کیو (برطانیہ) اور انتاناریوو (مڈغاسکر) اور لندن کی کوئین میری یونیورسٹی (برطانیہ) کے درمیان تعاون کا نتیجہ تھی۔
اسی بارے میں