وہ انڈین فلم جو پانچ لاکھ کسانوں نے مل کر اپنے خرچے پر بنائی

معروف فلم ساز اور ہدایتکار شیام بینیگل کی 1976 میں ریلیز ہونے والی فلم منتھن 48 سال بعد کانز فلم فیسٹیول میں دکھائی جا رہی ہے۔

معروف فلم ساز اور ہدایتکار شیام بینیگل کی 1976 میں ریلیز ہونے والی فلم منتھن 48 سال بعد کانز فلم فیسٹیول میں دکھائی جا رہی ہے۔

فلم کی ابتدا میں فلم کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ’یہ گجرات کے 5,00,000 کسان کی پیشکش ہے۔۔۔ منتھن۔‘

فلمساز شیام بینیگل کے مطابق گجرات کوآپریٹو مِلک مارکیٹنگ فیڈریشن پر مبنی اس فلم کو پانچ لاکھ کسانوں نے مشترکہ طور پر مالی اعانت فراہم کی تھی اور ہر ایک نے دو دو لاکھ روپے کا تعاون کیا تھا۔

فلم میں ڈاکٹر راؤ ایک آئیڈیلسٹ ڈاکٹر ہیں جو کوآپریٹو شروع کرنے آئے ہیں جبکہ مشرا (امریش پوری) ایک ڈیئری مالک ہیں جو دودھ کی کم قیمت دے کر کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔

ایک گاؤں ہے جو اعلی اور پسماندہ ذاتوں میں بٹا ہوا ہے۔ گاؤں میں رہنے والی ایک دلت (پسماندہ طبقے کی) عورت بنداس بندو (سمیتا پاٹل) بھی ہے۔

منتھن
Getty Images

لیکن بندو کی بے پروائی نہ صرف اس کی فطرت ہے بلکہ اس کی ضرورت بھی ہے۔ اس کا شوہر شرابی ہے اور وہ اپنے بچے کی پرورش تقریباً اکیلی ماں کی طرح کرتی ہے اور دودھ بیچ کر گھر کا خرچ چلاتی ہے۔

ڈاکٹر راؤ جب پہلی بار بندو (سمیتا پاٹل) کے گھر دودھ کا نمونہ لینے آتے ہیں تو وہ باہر بیٹھے چھوٹے بچے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا باپ کہاں ہے، تو بندو (سمیتا) چڑھ کر جواب دیتی ہے: 'باپ یہاں ہے، تمہیں کیا چاہیے؟'

سمتا پاٹل کے اس پہلے سین سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ غریب اور استحصال زدہ ضرور ہے لیکن ڈری ہوئی نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی پذیرائي

اقوام متحدہ نے اس فلم کے لیے شیام بینیگل اور ورگیس کورین کو خصوصی طور پر دیگر ممالک میں کواپریٹو پر مبنی تحریک کے بارے میں بتانے کے لیے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں خصوصی طور پر بلایا تھا اور منتھن کے شو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس فلم کو روس اور چین میں بھی دکھایا گیا۔

1976 میں بننے والی منتھن میں دیہی زندگی کو بہت حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے اور مسائل ایسے ہیں کہ جو آج بھی حسب حال ہیں۔

فلم میں ایسے کسان ہیں جو کم قیمت پر دودھ بیچنے پر مجبور ہیں۔ انڈیا آج بھی کسان اپنی فصل کی مناسب قیمت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔

فلم میں گاؤں میں اونچی ذات کے لوگوں کا غلبہ ہے اور سرپنچ دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔

فلم میں جب مِلک کوآپریٹو سوسائٹی بن جاتی ہے تو بھی سرپنچ (کلبھوشن کھربندہ) ذات کی بنیاد پر دلت کسانوں سے دودھ بیچنے کے لیے الگ لائن میں کھڑے ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

ذات پات کے نام پر امتیازی سلوک کی خبریں آج بھی سرخیاں بنتی ہیں۔

گووند نہلانی کے کیمرے اور شیام بینیگل کے وژن سے بنی یہ فلم کئی طریقوں سے بہت مایوس کن منظر پیش کرتی ہے۔ گاؤں میں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر تک نہیں ہے، اس لیے جانوروں کے ڈاکٹر راؤ (گریش کرناڈ) کو انسانوں کا علاج کرنا پڑتا ہے۔

اور آج بھی صورت حال بہت زیادہ نہیں بدلی ہے کیونکہ انڈیا کے بہت سے دیہاتوں میں آج بھی بنیادی صحت کی خدمات کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

نصیرالدین شاہ کا مثالی کردار

مِلک کوآپریٹو کے حوالے سے کسانوں کا استحصال کرنے والے ڈیئری مالک کی سوچ امریش پوری کے اس مکالمے سے واضح ہو جاتی ہے: 'نوجوان ہمیشہ آئیڈیلسٹ ہوتے ہیں، دنیا کو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن تبدیلی ہمیشہ ترقی نہیں ہوتی۔'

لیکن تمام مایوسیوں کے درمیان اور مِلک کوآپریٹو کے معاملے سے آگے، یہ فلم ایک مثبت تبدیلی اور خیالات کی ایک نئی قسم کا طوفان لاتی ہے۔

اس کی ایک مثال فلم میں نصیر الدین شاہ کا کردار بھولا ہے۔ ایک نوجوان دلت کسان جسے کبھی اپنا حق نہیں ملا۔ اسے شہر سے آئے ڈاکٹر راؤ کے آئیڈیلسٹ خیالات پر کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے وہ دودھ کوآپریٹو کا حصہ بھی نہیں بنتا۔

لیکن آہستہ آہستہ اٹل اور ضدی طبیعت کا جنگجو بھولا نہ صرف کوآپریٹو تحریک کا حصہ بن جاتا ہے بلکہ آخر میں مختلف دباؤ کی وجہ سے جب ڈاکٹر راؤ کے تبادلے کا حکم آتا ہے تو یہی بھولا گاؤں کے دلت لوگوں کو سمجھاتا ہے اور انھیں کواپریٹو سوسائٹی کو نہ ٹوٹنے دینے کے لیے راضی کرتا ہے۔

مقامی زبان ہو کہ باڈی لینگویج یا پھر چہرے پر اندرونی غصے کو پیش کرنے کا عمل نصیر الدین شاہ نے اس فلم میں بھولا کے اپنے کردار کو زندہ کر دیا۔

ان تمام باتوں کے علاوہ منتھن ڈاکٹر راؤ (گریش کرناڈ) اور بندو (سمیتا پاٹل) کے درمیان تعلقات کو بھی بہت باریک انداز میں دریافت کرتا ہے۔

ایک شہری، تعلیم یافتہ اور اونچی ذات کا ڈاکٹر اور ایک دیہی، ناخواندہ اور دلت ذات کی عورت دونوں ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ لیکن دونوں کے درمیان ایک بے نام رشتہ قائم ہو جاتا ہے جسے ٹھیک سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سمتا پاٹل کی آنکھوں سے اداکاری

سمتا پاٹل آنکھوں سے اداکاری کی ایک بہت ہی خوبصورت مثال ہیں۔ جب بھی گریش کرناڈ کی گاڑی سمتا پاٹل کے قریب سے گزرتی ہے تو سمتا کی آنکھوں میں مدد کی ادھوری امید نظر آتی ہے جبکہ ڈاکٹر کی بے رخی اور پس منظر میں گیت کے بول 'کبھی رکنا میرے گام، او پردیسیا' ایک عجیب سا احساس پیدا کرتا ہے۔

سمتا پاٹل جب بھی فلم میں نظر آتی ہیں وہ سکرین پر حاوی ہوتی ہیں اور ایک ناظر کے طور پر آپ توقع کرتے ہیں ان کی کہانی کو مزید تراشا جاتا تو بہتر ہوتا۔

گریش کرناڈ کا کردار بظاہر انڈیا میں دودھ کا انقلاب لانے والے اصل کردار ورگیز کورین سے متاثر نظر آتا ہے۔ ورگیز کورین کو ہندوستان میں 'سفید انقلاب' کا باپ سمجھا جاتا ہے جنھوں نے انڈیا میں ڈیئری کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔

شیام بینیگل نے گریش کرناڈ کے کردار کو یک رخا نہیں ہونے دیا اور گریش کرناڈ نے اپنے تہہ دار کردار کو خوب نبھایا۔ وہ مثالی بھی ہیں اور عملی بھی۔

بندو کی طرف کشش کے باوجود وہ زیادہ جذباتی نہیں ہیں۔ جب وہ اپنا مسئلہ لے کر آتی ہے تو اس کا درد سمجھنے کے بجائے اسے پیسے دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔

لیکن ڈائریکٹر اسے کسی اخلاقی پیمانے سے نہیں ماپتا۔

سنجیدہ ہونے کے باوجود انڈینز کی روزمرہ کی زندگی سے طنز پیدا کرنا شیام بینیگل کی خاصیت رہی ہے۔ منتھن میں بھی وہ اس کی وسعت کو پہلے ہی فریم میں پیش کر دیتے ہیں۔

سٹیشن پر ڈاکٹر راؤ کے استقبال کے لیے آنے والے گاؤں والے تاخیر سے پہنچتے ہیں اور اس طرح معافی مانگتے ہیں: 'معاف کیجیے گا، ٹرین وقت پر ا گئی۔'

فلم کے گیت

فلم کی ایک کشش اس کے گیت بھی ہیں جو ایک ترانے کی طرح ہیں۔ اس کی موسیقی ونراج بھاٹیہ نے دی تھی، اسے نیتا ساگر نے لکھا ہے اور ان کی بہن پریتی ساگر نے اسے آواز دی ہے۔ اس کے لیے پریتی ساگر کو نیشنل فلم ایوارڈ سے بھی نوازا گيا تھا۔

گیت اس طرح ہے: 'میرو گام کاٹھا پارے، جہاں دودھ کی ندیاں باہے، جہاں کویل کو کو گائے، مہارے گھر آنگنا نہ بھولو نا۔'

یہ وہی پریتی ساگر ہیں جنھوں نے فلم جولی میں مائی ہارٹ اِز بیٹنگ گایا تھا۔ فلم ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف انڈیا نے کانز فلم فیسٹیول کے لیے منتھن کو ریسٹور یعنی از سر نو بحال کیا ہے۔

آج جب کانز فلم فیسٹیول میں منتھن کی نمائش کی جا رہی ہے تو اس وقت نہ تو امریش پوری، نہ گریش کرناڈ اور نہ ہی سمتا پاٹل اس دنیا میں موجود ہیں، لیکن اطلاعات کے مطابق ان کے خاندان والوں نے کانز جا کر ریڈ کارپیٹ کو زینت بخشی ہے۔

یہ واحد انڈین فلم ہے جسے کلاسیک فلم کے زمرے میں کانز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس موقعے پر نصیرالدین شاہ اور رتنا پاٹھک کے ساتھ کورین کی بیٹی نرملا کورین اور امل انڈیا کے ایم ڈی جین مہتا وہاں موجود تھے۔

فلم کے مکالمے کیفی اعظمی نے لکھے ہیں اور فلم کے مرکزی خیال کا سہرا شیام بینیگل اور ورگیز کورین کو دیا گیا ہے۔ سکرین پلے کی ذمہ داری مشہور ڈرامہ نگار وجے ٹنڈولکر نے لی ہے۔

شمع زیدی نے آرٹ ڈائریکشن کا کام اس وقت کیا جب بہت کم خواتین ایسا کام کرتی تھیں۔ جبکہ فنکاروں کی فہرست میں گجرات کے پورے سنگوانہ گاؤں کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ آخر کہانی تو گاؤں والوں کی ہی تو ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.