مختار انصاری کی موت: انڈیا میں انڈر ورلڈ کا بڑا نام جنھیں جیل میں ’زہر دیے جانے‘ کا ڈر تھا

اتر پردیش میں ڈان سے سیاستدان بننے والے مختار انصاری کے بیٹے نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کے والد کی جان کو خطرہ ہے۔ خود مختار نے جیل میں زہر دیے جانے کا الزام لگایا تھا۔ انھیں ایک بی جے پی رہنما کے قتل کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
Mukhtar
Getty Images

’مافیا سے طاقتور لیڈر بننے والے مختار انصاری جو اتر پردیش کی ’باندا جیل‘ میں اپنی سزا کاٹ رہے تھے، جمعرات کی شام دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔‘ یہ خبر جیل انتظامیہ کی جانب سے دی گئی۔

باندا ڈسٹرکٹ جیل میں قید مختار انصاری کو جمعرات کی شام رانی درگاوتی میڈیکل کالج میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے داخل کرایا گیا تھا۔

رانی درگا وتی میڈیکل کالج کے میڈیکل بلیٹن کے مطابق ’63 سالہ مختار انصاری کو جیل حکام نے رات آٹھ بج کر 45 منٹ پر میڈیکل کالج کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا تھا۔‘ بتایا جا رہا ہے کہ ’انھیں قے کی شکایت اور بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔‘

میڈیکل بلیٹن میں کہا گیا ہے کہ مریض کو نو ڈاکٹروں کی ٹیم نے فوری طبی امداد فراہم کی لیکن بہترین کوششوں کے باوجود اس کی موت ’دل کا دورہ پڑنے‘ کی وجہ سے ہوئی۔

دو روز قبل بھی منگل کو طبیعت بگڑنے پر انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور انھیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا تھا۔

جمعرات کی شام مختار انصاری کی طبیعت بگڑنے کی خبر ملتے ہی اُن کے آبائی علاقے غازی پور میں ان کی رہائش گاہ پر لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

موت کی تصدیق کے بعد پورے اتر پردیش میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور مختار انصاری کے آبائی ضلع ماؤ سمیت کئی علاقوں میں پولیس کی کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔

ان کی رہائش گاہ کے باہر بڑی تعداد میں پولیس موجود تھی۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق پولیس نے نیم فوجی دستوں کے ساتھ علی گڑھ، فیروز آباد، پریاگ راج، کاس گنج سمیت ریاست کے کئی اضلاع میں فلیگ مارچ کیا۔

وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے بھی رات ہی میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں مختار انصاری کی وفات کے بعد ایک اہم اجلاس کی صدارت کی۔

Mukhtar
Getty Images

زہر دینے کا الزام

گذشتہ سال مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کے والد کی جان کو خطرہ ہے اور اسی سلسلے میں انھوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رابطہ بھی کیا تھا۔

عدالت میں دی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ مختار انصاری کو مصدقہ اطلاع ملی تھی کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے اور باندا جیل میں انھیں قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

مختار انصاری کو تاوان کے ایک مقدمے میں 2019 سے پنجاب کی روپ نگر جیل میں رکھا گیا تھا۔

سال 2021 میں اتر پردیش پولیس انھیں باندا جیل لے آئی، تب سے وہ یہیں قید تھے۔

کانگریس کی جانب سے اب اُن کی موت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

کانگریس لیڈر سریندر راجپوت نے کہا کہ مختار انصاری نے کچھ دن پہلے الزام لگایا تھا کہ ’انھیںزہر دیا جا رہا ہے اور آج انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیے۔ ہائی کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ جیلوں میں کیا ہو رہا ہے؟‘

سماج وادی پارٹی نے مختار انصاری کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے۔ ایس پی لیڈر امک جمی نے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

لکھنؤ سے بی بی سی کے نامہ نگار اننت جھانے کے مطابق ان کے بھائی افضل انصاری اور بیٹا عمر رات ہی میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ باندا کے لیے روانہ ہوئے۔

رات ہی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے باندا میڈیکل کالج ہسپتال لے جایا گیا۔ ان کی میت غازی پور میں ان کی آبائی رہائش گاہ لے جائی جائے گی۔

قتل کیس میں قید

مافیا سے سیاستدان بنے، اتر پردیش کے پوروانچل کے ماؤ سے پانچ بار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔

گذشتہ سال اپریل میں مختار انصاری کو بی جے پی ایم ایل اے کرشنانند رائے کے قتل کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس کیس میں ان کے بھائی اور غازی پور کے ایم پی افضل انصاری کو بھی چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

غازی پور ضلع کے محمد آباد تھانے میں درج مجرمانہ تاریخ کے مطابق مختار انصاری کے خلاف کل 65 مقدمات درج ہیں۔

1996 میں مختار انصاری کے خلاف وشو ہندو پریشد کے عہدیدار اور کوئلہ تاجر نند کشور رنگٹا کے اغوا اور بی جے پی ایم ایل اے کرشنانند رائے کے قتل میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کرشنا نند رائے کو 2005 میں قتل کر دیا گیا تھا۔

afzal
BBC
افضل انصاری

دو دیگر مقدمات میں سزا دی گئی

انصاری خاندان پچھلے کچھ سالوں سے خبروں میں ہے۔ ماؤ میں انصاری کی کئی مبینہ غیر قانونی جائیدادیں منہدم کی گئیں۔

ستمبر 2022 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ نے مختار انصاری کو جیلر کو دھمکی دینے پر سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ معاملہ 2003 کا ہے۔

کچھ دنوں بعد 1999 کے ایک مقدمے میں انھیں گینگسٹر ایکٹ کے تحت پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور 50 ہزار روپے جرمانہ بھی ہوا۔

جولائی 2022 میں مختار انصاری کی اہلیہ افسا انصاری اور ان کے بیٹے عباس انصاری کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔

اگست 2020 میں لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے افضل انصاری کے گھر کو منہدم کردیا۔ الزام تھا کہ یہ گھر غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

اس کے خلاف مختلف جرائم کے کل 65 مقدمات زیر التوا تھے۔ اس کے خلاف مکوکا (مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ) اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت بھی مقدمات درج کیے گئے تھے۔

ان میں سے بعض اہم مقدمات میں عدالت نے عدم ثبوت، گواہوں کے مخالف ہونے اور سرکاری وکیل کی کمزور وکالت کی وجہ سے انھیں بری کر دیا، لیکن چند سالوں میں ہی کچھ مقدمات اپنے انجام تک پہنچ گئے اور انھیں سزا بھی سُنا دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

مشہور کرشنا نند رائے قتل کیس: 500 گولیاں

غازی پور کی محمد آباد اسمبلی سیٹ، جو 1985 سے انصاری خاندان کے پاس تھی، 17 سال بعد 2002 کے انتخابات میں بی جے پی کے کرشنانند رائے نے ان سے چھین لی تھی۔

لیکن وہ ایم ایل اے کے طور پر اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور تین سال بعد ان کا قتل کر دیا گیا۔

پوروانچل میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والے اس قتل عام کی خبر کو موقع پر کور کرنے والے سینئر صحافی پون سنگھ نے کہا تھا کہ ’وہ ایک پروگرام کا افتتاح کرنے کے بعد واپس آرہے تھے جب ان کی بلٹ پروف ٹاٹا سومو کار چاروں طرف دیکھی گئی۔‘ گھیرے میں لے کر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ حملے کے لیے ایک سڑک پر جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں سے گاڑی کو بائیں یا دائیں موڑنے کی گنجائش نہ تھی۔کرشنا نند کے ساتھ گاڑی میں کل 6 اور لوگ سوار تھے۔ اے کے 47 (کلاشنکوف) سے تقریباً 500 گولیاں چلائی گئیں جن کی زد میں آکر تمام سات افراد مارے گئے۔‘

ماہرین کے مطابق مختار انصاری غازی پور کی اپنی پرانی فیملی سیٹ پر شکست کے بعد سے ناراض تھے۔ کرشنا نند قتل کیس کے وقت جیل میں ہونے کے باوجود اس قتل کیس میں مختار انصاری کا نام لیا گیا تھا۔

پون کے مطابق ’اس قتل کیس کے بعد غازی پور کے ایم پی اور موجودہ حکومت میں وزیر منوج سنہا کی پوری سیاست ایک مضبوط موقف پر آگئی۔ منوج اس معاملے میں مختار کے خلاف گواہ ہیں۔

دادا آزادی پسند، اسی مقصد کے لیے اپنی جان دینے والے نانا

سال 2019 میں بی بی سی پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، مختار انصاری کے دادا کو ایک ایسے رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گاندھی کی حمایت کی اور وہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری تھے، جو 1926-27 میں کانگریس کے صدر تھے۔

مختار انصاری کے نانا بریگیڈیئر محمد عثمان کو 1947 کی جنگ میں جان دینے پر ’مہاویر چکر‘ سے نوازا گیا۔

مختار کے والد سبحان اللہ انصاری، جو غازی پور میں اچھی شہرت رکھتے تھے اور کمیونسٹ پس منظر سے تعلق رکھنے والے تھے، مقامی سیاست میں بھی خوب حصہ لیتے تھے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انڈیا کے سابق نائب صدر حامد انصاری مختار انصاری کے چچا ہیں۔

مختار کے بڑے بھائی افضل انصاری مسلسل پانچ مرتبہ (1985 سے 1996 تک) غازی پور کے محمد آباد اسمبلی سے ایم ایل اے رہے ہیں اور 2004 میں غازی پور سے ایم پی کا انتخاب بھی جیتے ہیں۔

مختار کے دوسرے بھائی سبکت اللہ انصاری بھی 2007 اور 2012 کے انتخابات میں محمد آباد سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔

1996 میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر جیت کر پہلی بار اسمبلی پہنچنے والے مختار نے 2002، 2007، 2012 اور پھر 2017 میں ماؤ سے کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں رہتے ہوئے گزشتہ تین انتخابات لڑے۔

مختار انصاری کے دو بیٹے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے عباس انصاری نے 2017 کے انتخابات میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر ماؤ ضلع کی گھوسی اسمبلی سیٹ سے اپنا پہلا الیکشن لڑا تھا اور وہ 7 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔

مختار انصاری کے بھائی افضل انصاری نے کمیونسٹ پارٹی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، پھر سماج وادی پارٹی میں چلے گئے، جس کے بعد انھوں نے ’قومی ایکتا دل‘ کے نام سے اپنی پارٹی بنائی اور 2017 میں بی ایس پی میں شمولیت اختیار کی۔

مختار نے بی ایس پی سے شروعات کرنے کے بعد آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا، پھر 2012 میں خاندانی پارٹی قومی ایکتا دل سے کھڑے ہوئے اور 2017 میں پارٹی کے بی ایس پی میں انضمام کے ساتھ ہی وہ بی ایس پی میں بھی شامل ہوگئے۔ یہاں یہ دلچسپ بات ہے کہ بی ایس پی سپریمو مایاوتی، جنھوں نے کبھی مختار انصاری کو ’غریبوں کا مسیحا‘ کہا تھا، نے اپریل 2010 میں انصاری برادران کو ’جرائم میں ملوث‘ افراد قرار دیتے ہوئے بی ایس پی سے نکال دیا تھا۔

سنہ2017کے انتخابات سے پہلے، انھوں نے انصاری برادران کی پارٹی ’قومی ایکتا دل‘ کو یہ کہتے ہوئے بی ایس پی میں ضم کر دیا کہ ’عدالت میں ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔‘

مختار
BBC
بائیں سے: افضل انصاری، عباس انصاری اور عمر انصاری

غازی پور میں مختار کا عروج

مختار انصاری کے سیاسی اور مجرمانہ مساوات میں غازی پور کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے صحافی اُتپل پاٹھک نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’برجیش سنگھ اور مختار کی تاریخی گینگ وار، جو 80 اور 90 کی دہائی میں اپنے عروج پر تھی، غازی پور سے یہاں شروع ہوئی تھی۔‘

غازی پور ایک خاص شہر ہے جو دوآب کی زرخیز زمین پر واقع ہے۔ سیاسی طور پر، غازی پور، ایک لاکھ سے زیادہ بھومیہار آبادی کے ساتھ، اتر پردیش میں بھومیہاروں کے اکثریتی علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ پرانے مقامی صحافی بھی بولی میں غازی پور کو ’بھومیہاروں کا ویٹیکن‘ کہتے ہیں۔

ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک غازی پور میں صنعت کے نام پر کوئی خاص چیز نہیں ہے۔ افیون کا کاروبار ہوتا ہے اور ہاکی بہت کھیلی جاتی ہے۔

غازی پور کا ایک اہم تضاد یہ ہے کہ پوروانچل کے جرائم پیشہ اور گینگ وار کا گڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ اس ضلع کے کئی لڑکے بھی ہر سال آئی اے ایس - آئی پی ایس بنتے ہیں۔

صحافی اُتپل پاٹھک کے مطابق ’مختار انصاری اور ان کے خاندان کا سیاسی اثر غازی پور سے لے کر ماؤ، جونپور، بلیا اور بنارس تک پھیلا ہوا ہے۔ غازی پور میں، جہاں صرف 8 سے 10 فیصد مسلم آبادی ہے، انصاری خاندان ہمیشہ ہندو ووٹ بینک کی بنیاد پر الیکشن جیتتا رہا ہے۔‘

غازی پور کے علاقے یوسف پور میں واقع مختار انصاری کی آبائی رہائش گاہ کو ’برکہ پھاٹک‘ یا ’بڑا دروازہ‘ کہا جاتا ہے۔ قصبے جیسے اس چھوٹے سے شہر میں ’برکہ پھاٹک‘ کا پتہ سب کو معلوم ہے، اس لیے ہدایت پوچھ کر ان کے گھر پہنچنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

سینئر صحافی اُتپل پاٹھک کہتے ہیں کہ ’دسمبر کے مہینے میں جب میں غازی پور پہنچا تو مختار کی بوڑھی والدہ بہت بیمار تھیں۔ ان کا پورا خاندان ملک اور دنیا کے کونے کونے سے انہیں آخری بار دیکھنے کے لیے جمع ہو رہا تھا۔‘

مختار بانڈہ جیل میں بند تھے لیکن ان کے بڑے بھائی افضل انصاری اور بیٹے عباس انصاری نے بی بی سی سے بات کی۔ اس کے چند ہی گھنٹوں میں مختار کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

مختار انصاری کے گھر کے باہر بنایا گیا بڑا دروازہ دن بھر زائرین کے لیے کھلا رہتا ہے۔ مقامی لوگ برآمدہ میں کھڑی بڑی گاڑیوں کے قافلے کے سامنے بڑے جلسہ گاہ میں بیٹھے انصاری برادران سے ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ میٹنگ میں کانگریس کے سابق صدر ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے لے کر سابق نائب صدر حامد انصاری تک تمام سیاسی چہروں اور خاندان کے فوت ہونے والے اجداد کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔

مختار
BBC
انصاری خاندان کی میٹنگ میں خاندانی رہنماؤں کی تصاویر لٹکی ہوئی ہیں

چھوٹے بھائی مختار کے بارے میں بات کرتے ہوئے افضل انصاری نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مختار ہم سے دس سال چھوٹا ہے۔ سکول ختم کرنے کے بعد وہ یہاں غازی پور کے کالج میں پڑھتا تھا۔ اس کالج میں راجپوت بھومیہاروں کا غلبہ تھا۔ اس کی دوستی ایک لڑکے سے ہوئی۔ سادھو سنگھ، اس کے ساتھ اپنی دوستی برقرار رکھنے کے لیے، وہ اپنی ذاتی دشمنیوں میں ملوث ہو گیا اور کچھ بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

ایم پی افضال انصاری نے کہا تھا کہ ’نہ صرف انھیں (مختار) بلکہ ان کے پورے خاندان کو بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مختار کے خلاف لگائے گئے یہ تمام مقدمات سیاسی طور پر محرک ہیں۔ وہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ واقعی کچھ غلط کیا ہے تو پولیس تمہاری ہے، حکومت تمہاری ہے، سی بی آئی تمہاری ہے، اب تک کوئی جرم ثابت کیوں نہیں ہوا؟‘

افضل نے کہا تھا کہ غازی پور کے صرف 8 فیصد مسلمان ہمیں نہیں جتوا سکتے، یہاں کے ہندو ہمیں جتواتے ہیں، آخر ہم بھی ہر خوشی اور غم میں ان کے ساتھ کھڑے تھے، منہ پر رومال باندھ کر روزہ رکھتے تھے، ہاتھیوں پر بیٹھتے تھے۔ یہاں کے لوگوں نے ہولی بھی کھیلی۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.