ترکی میں کریڈٹ کارڈ کے سہارے زندگی: ’شادی کی خریداری کارڈ سے کی، اب قسطوں میں قرض چکاؤں گی‘

ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح مارچ میں 68.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوراک یا رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈز کا سہارا لے رہی ہے۔
ناز جاکر
BBC
ناز جاکر

ترکی میں ایک فیکٹری میں کام کرنے والی ناز جاکر کہتی ہیں کہ ’اگر میں کریڈٹ کارڈ استعمال نہ کر سکتی یا قسطوں میں ادائیگی نہ کر سکتی تو کچھ بھی خریدنے کے قابل نہ ہوتی۔‘

26 برس کی ناز ترکی میں ان لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی زندگی کریڈٹ کارڈزپر گزر رہی ہے۔

ترکی کی سالانہ افراط زر کی شرح مارچ میں 68.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خوراک یا رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے کریڈٹ کارڈز کا سہارا لے رہی ہے۔

ناز کہتی ہیں کہ ’افراط زر کی وجہ سے ہماری تنخواہیں کم ہوگئیں اور ہماری قوت خرید کم ہو گئی ہے۔‘

’سب سے عام سی چیز خریدتے وقت بھی ہمیں دو بار سوچنا پڑتا ہے۔‘

خیال رہے کہ ترکی میں کم از کم اجرت کی حد 17,000 لیرا جو 524 ڈالر بنتی ہے۔ جب کہ ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین میں سے ایک ’ڈی آئی ایس کے‘ کے مطابق غربت کی حد 25,000 لیرا یا 768 ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

ترکی
Getty Images

اس وقت خاص طور پر اشیائے خورد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام پر بوجھ بن رہی ہیں۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے ممالک میںترکی میں سب سے زیادہ غذائی افراط زر ہے، جو کہ سالانہ 70 فیصد ہے، جو او ای سی ڈی کی اوسط 6.7 فیصد سے دس گنا زیادہ ہے۔

ناز کہتی ہیں کہ وہ مکان کے کرائے کی قیمتوں میں اضافے سے بھی پریشان ہیں کیونکہ جب انھیں اپنے فلیٹ سے نکلنا پڑا تو دوسری جگہ دگنا کرایہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس سے کہیں زیادہ مشکل پیش آ رہی ہے، اس بس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔‘

ترکی کے مرکزی بینک کے سابق گورنر ’حافظے گئے ایرکان‘ نے بھی استنبول میں کرایہ برداشت سے باہر ہونے سے متعلق شکایت کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں کوئی گھر نہیں ملا۔ کرائے حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہیں۔ ہم اپنے والدین کے پاس ان کے گھر پر ہی شفٹ ہو گئے ہیں۔‘ انھوں نے جنوری میں سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا یہ ممکن ہے کہ استنبول مین ہیٹن سے زیادہ مہنگا ہو؟‘

کپڑے
Getty Images

غیر روایتی اقتصادی پالیسی

اکتوبر 2022 میں ترکی میں مہنگائی 86 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو کہ 24 برس میں سب سے زیادہ تھی۔ ٹرانسپورٹ، فوڈ اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں قیمتوں میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ’انفلیشن ریسرچ گروپ‘ کے آزاد ماہرین کے تخمینوں کے مطابق اس وقت سالانہشرح 186.27 فیصد تھی۔

ترکی کے صدر رجبطیب اردوغان طویل عرصے سے شرح سود کو کم رکھنے کی غیر روایتی اقتصادی پالیسی پر زور دے رہے تھے تا کہ زیادہ افراط زر کے باوجود ترکی کی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔

زیادہ تر مرکزی بینک افراط زر سے لڑنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتے ہیں، لیکن ترکی میں اس وقت شرح سود 10.5 فیصد تھی۔

ایسے میں لوگوں کے لیے بینکوں سے قرض لینا یا کریڈٹ کارڈز پر انحصار کرنا ایک بہتر آپشن تھا کیونکہ شرح سود مہنگائی سے کم تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ طویل مدت میں ان کا قرض آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔

گذشتہ برس طیب اردوغان کے دوبارہ انتخاب کے بعد محمد سمسک کی قیادت میں ان کی نئی اقتصادی ٹیم نے پالیسی میں تبدیلی لائی۔

مارچ میں مرکزی بینک نے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے غیر متوقع طور پر شرح سود میں 500 ’بیسس پوائنٹس‘ کا اضافہ کر کے 50 فیصد کر دیا۔ محمد سمسیک نے حال ہی میں کریڈٹ کارڈز پر بھی ممکنہ ’ریگولیشنز‘ کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے استعمال پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ دولت دوسروں کے پیسوں، قرضوں یا کریڈٹ کارڈز کے ذریعے حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔

سنہ 2023میں کریڈٹ کارڈ کا قرض 2.5 گنا بڑھ گیا، جو ایک ٹریلین لیرا یعنی 34 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا، یہ ایک ریکارڈ ہے۔

مجموعی طور پر 2.5 ٹریلین لیرا 72 بلین ڈالر کریڈٹ کارڈ کی رقم سپر مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں کھانا خریدنے اور کھانے کی خریداری کے لیے خرچ کی گئی۔

تجزیہ کار اور بینکنگ انڈسٹری کے حکام جلد ہی پابندیاں عائد کرنے کی توقع کر رہے ہیں، کیونکہ حکومت کچھ عرصے سے پالیسی بدلنے کا اشارہ دے رہی ہے۔

اعدادوشمار
BBC

مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ

ماہر اقتصادیات بنہان ایلیف یِلمز نے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے یا چکر (جہاں لوگ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے زیادہ قرض حاصل کرتے ہیں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کم شرح سود کی طویل مدت کی وجہ سے دوسرے کارڈ سے نقد رقم نکالنے یا موجودہ کریڈٹ کارڈ کے قرض کو ادا کرنے کے لیے ذاتی قرض لینے جیسے طریقے ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔‘

وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ بہت سے لوگ سخت مالیاتی پالیسی میں پھنس گئے ہیں کیونکہ خوراک کی قیمتیں تین گنا بڑھ گئی ہیں اور حالیہ بلند شرح سود نے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان حالات میں عام گھرانے اور کمپنیاں قرض کے جال میں پھنس گئیں اور وہ افراط زر کے دور سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اپنے کریڈٹ کارڈز پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ بلا سود قسطیں دینے کا آپشن دیتے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ترکی میں متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے۔ انھوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ کریڈٹ کارڈز کے استعمال کو محدود کرنے کی بجائے آمدنی کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے کم آمدنی والے گروہوں کی مدد کریں۔

ترکی
Getty Images

’کسی ایک بھی ایسے شخص کو تلاش کرنا مشکل ہے جو مقروض نہ ہو‘

ناز کہتی ہیں کہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کی ضرورت تو ضروری اشیا تک رسائی سے محرومی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس وقت فیکٹری یا اپنے نزدیکی حلقے میں کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا مشکل ہے جو مقروض نہ ہو۔

ناز اب جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھنے والی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے موجودہ کریڈٹ کارڈ کا زیادہ تر قرض نئے گھریلو آلات کی خریداری کی وجہ سے ہے۔

ناز بتاتی ہیں کہ کریڈٹ کارڈ کے بغیر وہ ان چیزوں میں سے کسی کو بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں کیونکہ وہ صرف ماہانہ قسطوں میں ہی کچھ خرید سکتی ہیں۔

ان کی رائے میں اگرچہ اب شرح سود زیادہ ہے، پھر بھی لوگوں کو کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا بہتر آپشن لگتا ہے۔

ناز کا کہنا ہے کہ ’میں جانتی ہوں کہ ان مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر وہ کچھ چیزیں خریدنے کا انتظار کرتے ہیں تو قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔‘

چونکہ انھوں نے اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا کبھی نہیں چھوڑا، اس لیے وہ اسی چکر میں پھنسی رہتی ہیں جس میں وہ اپنی تنخواہ وصول کرتی ہیں، کریڈٹ کارڈ کا بل ادا کرتی ہیں اور پھر دوبارہ قرض میں جکڑ جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہر کوئی قرض تلے دبا ہے جو اسے ادا کرنا ہے اور جیسے جیسے شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ میں بھی شدت آ جاتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.