اندام نہانی میں موجود ’سینکڑوں بیکٹریا‘ خواتین کی حفاظت کیسے کرتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق اندام نہانی میں رہنے والے چند جراثیم حیران کن طور پر خواتین کی مجموعی صحت کے لیے بہت اہم ہیں جن میںیماریوں سے بچاؤ سے لے کر حمل کے بہتر نتائج تک کی صحت شامل ہے۔

خواتین کی اندام نہانی یا ویجائنا کے اندر ایک نہایت نازک حیاتیاتی نظام موجود ہوتا ہے جس میں بیکٹریا، فنگس (پھپوندی) اور وائرس کی ہزاروں اقسام ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ یہ تمام جرثومے غذا کے حصول اور اپنی جگہ بنانے کے لیے آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔

تاہم ویجائنا میں رہنے والے چند جراثیم حیران کن طور پر خواتین کی مجموعی صحت کے لیے بہت اہم ہیں جن میں بیماریوں سے بچاؤ سے لے کر حمل کے بہتر نتائج تک کی صحت شامل ہے۔

ماہرین کے مطابق جن خواتین کی اندام نہانی میں لیکٹو بیسیلس (Lactobacillus) نامی بیکٹیریا وافر مقدار میں موجود ہوں تو ان میں بانجھ پن، اسقاطِ حمل، بچے کی قبل از وقت پیدائش یہاں تک کے سرویکل کینسر کا خطرہ بھی کم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

سائنسدان اب ایسے تشخیصی ٹیسٹس اور علاج کی تیاری میں مصروف ہیں جو ان جرثوموں (مائیکرو آرگینزمز) کے بہتر استعمال میں مدد دے سکیں۔ اگر ان کی یہ کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ دریافت تولیدی صحت کی دیکھ بھال میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اندام نہانی کا مائیکروبایوم صحت کی پیشگوئی کیسے کرتا ہے اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

یاد رہے کہ مائیکرو بایوم انتہائی چھوٹے بیکٹریا کا ہجوم ہوتا ہے جس کو اکثر لوگ معدے اور آنتوں کے افعال کی بہتری کے حوالے سے تو پہچانتے ہیں تاہم اندام نہانی میں پائے جانے والے ان بیکٹیریا کے کام پر بات کم ہی کی گئی ہے۔

بچپنمیں اندام نہانی کا مائیکروبایوم عموماً ایسے بیکٹیریا پر مشتمل ہوتا ہے جو کم آکسیجن والے ماحول میں نشوونما پاتے ہیں اور ان کو ایروبک مائیکروبز کہا جاتا ہے۔

تاہم لڑکیوں میں بلوغت کے دوران ایسٹروجن ہارمون میں اضافہ یہاں ایک ایسے ماحول کو جنم دیتا ہے جو لیکٹو بیسیلس نامی بیکٹیریا کے لیے انتہائی موزوں ہوتا ہے۔

لیکٹو بیسیلس کو خاص طور پر صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مناسب مقدار نقصان دہ جراثیم کو اندام نہانی میں جگہ بنانے سے روک کر انفیکشن سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

برطانیہ کے میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی میں مائیکروبایوم کی سربراہ کریسی سرگاکی کا کہنا ہے کہ ’یہ بیکٹیریا نقصان دہ جراثیم کو غذائیت اور جگہ کے لیے مقابلے میں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔‘

لیکٹو بیسیلس لیکٹک ایسڈ بھی پیدا کرتے ہیں جو اندام نہانی کے ماحول کو نقصان دہ جراثیم کے لیے نا موزوں بنا دیتا ہے۔

سرگاکی کے مطابق ’یہ ماحول کو مضر جراثیم کے لیے انتہائی ناسازگار بنا دیتا ہے، اس لیے وہ وہاں آنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ لیکٹو بیسیلس مقامی مدافعتی نظام کو بھی منظم کرتے ہیں، انفیکشن سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں اور قدرتی اینٹی بایوٹکس پیدا کرتے ہیں یوں وہ دوسرے بیکٹیریا کو ختم بھی کر سکتے ہیں جو وجائنا (اندام نہانی) کے اندر داخل ہونے کی کوشش کریں۔‘

دوسری جانب اگر اندام نہانی کا مائیکروبایوم متاثر ہو جائے اور لیکٹو بیسیلس کی تعداد کم ہو جائے (جسے ویجائنل ڈس بایوسس کہا جاتا ہے) تو بیکٹیریل ویجائنوسس، فنگل انفیکشن اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن (یو ٹی آئی ) کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اندام نہانی کے مائیکروبایوم اور ایچ آئی وی کا تعلق

ماہرین کی رائے میں اگر کوئی خاتون جنسی طور پر متحرک ہو اور اس کی اندام نہانی کے مائیکروبایوم میں عدم توازن ہو جائے تو ایسی صورت میں اسے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

مثال کے طور پر جن خواتین میں لیکٹو بیسیلس کی مقدار کم ہوتی ہے ان میں ایچ آئی وی (ایچ آئی وی، ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس جو انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کر نشانہ بناتا ہے) میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ پایا گیا ہے۔

لورا گڈفیلو برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیورپول میں خواتین اور بچوں کی صحت کی کلینیکل لیکچرر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں ایچ آئی وی کی شرح 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے تاہم کچھ سیکس ورکرز حیران کن طور پر اس انفیکشن سے بچی رہتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ افریقہ میں سیکس ورکر کے طور پر ایچ آئی وی لگنے کا امکان اس بات سے جڑا ہوتا ہے کہ اندام نہانی کے مائیکروبایوم کے حالات کیا ہیں۔ اگر لیکٹو بیسیلس کا تناسب کم ہو تو ایچ آئی و کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘

جن خواتین میں لیکٹو بیسیلس کی سطح کم ہوتی ہے ان میں ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے جو کہ بچہ دانی کے منہ کے کینسر اور اندام نہانی کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ویجائنل ڈس بایوسس کا شکار خواتین میں ایچ پی وی انفیکشن کے ختم ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور ساتھ ہی اس انفیکشن کے آگے چل کر سروائیکل کینسر کی شکل اختیار کرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

گڈفیلو نے مائیکروبایوم کی مثال ایک جنگل سے دی۔

’مائیکروبایوم کی مثال جنگل سے سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر جنگل کی زمین مضبوطہو تو وہاں متوازن نظام موجود ہونے سے نقصان دہ بیج یا چیزیں نہیں پنپ سکیں گی تاہم اگر مائیکروبایوم مضبوط نہ ہو تو نقصان دہ بیکٹیریا یا وائرس آسانی سے بڑھتے جاتے ہیں۔‘

حمل کی پیشگوئی

دلچسپ بات یہ ہے کہ عورت کے تولیدی حصے میں موجود بیکٹیریا کی کمیونٹی نہ صرف حمل ٹھہرنے بلکہ بچے کو مدتِ حمل پوری ہونے تک محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مثال کے طور پر جن خواتین میں لیکٹو بیسیلس کی سطح کم ہوتی ہے ان میں ایسا حمل بھی ہو سکتا ہے جس میں جنین رحم کے بجائے کسی اور جگہ نشوونما پانے لگتا ہے اور یوں ان میں اسقاطِ حمل یا ایکٹوپک حمل کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‘

اندام نہانی کے مائیکروبایوم میں عدم توازن (ویجائنل ڈس بایوسس) کا شکار خواتین میں قبل از وقت زچگی کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ قبل از وقت پیدائش سے مراد وہ بچے ہیں جو حمل کے 37 ہفتے مکمل ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں۔

تاہم گڈ فیلو نے وضاحت کی کہ یہ قبل از وقت پیدائش کی واحد وجہ نہیں اور وجائنا میں موجود بایوم میں عدم توازن کا شکار بہت سی خواتین وقت پر صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں تاہم ان کے خیال میں یہ کیفیت خطرے کو کسی حد تک بڑھا ضرور دیتی ہے۔

ماہرین ایک اور مفید بیکٹیریا بیفائیڈو بیکٹیریم (Bifidobacterium) کو قبل از وقت پیدائش سے بچاؤ میں معاون سمجھتے ہیں تاہم یہ بیکٹیریا نسبتاً نایاب ہے اور عموماً صرف پانچ فیصد سے کم خواتین میں پایا جاتا ہے۔

کچھ تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ویجائنل ڈس بایوسس اور فرٹیلیٹی (عورت میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت) کے علاج کی ناکامی کے درمیان تعلق موجود ہو سکتا ہے۔

گڈفیلو کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی خاتون میں ڈس بایوسس کی موجودگی ہو اور وہ آئی وی ایف کروائے تو ہمیں لگتا ہے کہ اس علاج کی کامیابی کے امکانات کچھ کم ہو سکتے ہیں۔‘

یہ سمجھنے کے لیے کہ ویجائنل ڈس بایوسس کس طرح حمل نہ ٹھرنے کے امکانات بڑھا سکتی ہے، ایک نظریہ سوزش یا انفلیمیشن سے جُڑا ہوا ہے جو جسم کے مدافعتی نظام خاص طور پر زخم یا انفیکشن کے خلاف ایک قدرتی ردِعمل ہے۔

جسم میں مناسب حد تک سوزش زندگی کے لیے ضروری ہوتی ہے لیکن حد سے زیادہ سوزش کو کئی بیماریوں سے جوڑا گیا ہے جن میں دل کی بیماریاں، ذیابیطس، موٹاپا اور الزائمر بھی شامل ہیں۔

اندام نہانی، آول نال (پلیسینٹا یعنی پیدائش سے قبل بچے کو خوراک پہنچانے والی نالی) یا بڑھتے ہوئے جنین میں پائی جانے والی سوزش بھی قبل از وقت پیدائش یا اسقاطِ حمل کا باعث بن سکتی ہے یا خواتین میں حمل کا عمل مشکل بنا سکتی ہے۔

گڈفیلو کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ جن خواتین میں لیکٹو بیسیلس موجود ہوتے ہیں، ان کی اندام نہانی کی رطوبت میں سوزش پیدا کرنے والے پروٹینز کم ہوتے ہیں۔ اس لیے موجودہ مفروضہ یہ ہے کہ ڈس بایوسس زیادہ سوزش کو جنم دیتی ہے اور بعض خواتین میں یہی سوزش قبل از وقت پیدائش کا سبب بن سکتی ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ لیکٹو بیسیلس کو آنتوں میں بھی ایک ’اچھا بیکٹیریا‘ سمجھا جاتا ہے خاص طور پر اس کی سوزش کو دبانے میں مدد دینے کی صلاحیت کی وجہ کے باعث۔

بانجھ پن، اسقاطِ حمل اور سرویکل کینسر کے خطرات

دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز مثلاً کلیمائڈیا، گونوریا، بیکٹیریل ویجائنوسس (اندام نہانی کا انفیکشن) بھی خواتین میں قبل از وقت پیدائش، بانجھ پن، اسقاطِ حمل اور سرویکل کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں۔

لیکٹو بیسیلس ممکنہ طور پر ان انفیکشنز سے اس طرح تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ یہ بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کے ساتھ اپنی غذا حاصل کرنے کا مقابلہ کرتے ہیں اور یوں انھیں اندام نہانی میں جگہ بنانے سے روک دیتے ہیں۔

کریسی سرگاکی کے مطابق ’ایک صحت مند مائیکروبایوم اندامِ نہانی کے انفیکشن سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے اور یہی بات آگے چل کر قبل از وقت پیدائش کے خطرے سے بچنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔‘

موجودہ دور میں ادویات کا استعمال

یہ تمام حقائق سامنے رکھتے ہوئے بعض سوال ذہن میں آتے ہیں۔

کیا ہم اندام نہانی کے مائیکروبایوم میں تبدیلی کر کے بچے کی پیدائش کے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں؟

بالکل اسی سوال کا جواب امپیریل کالج لندن کے محققین ایک نئے کلینیکل ٹرائل کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس آزمائش میں یہ جانچ کی جائے گی کہ آیا لیکٹن وی (ایک پروبایوٹک) زیادہ خطرے سے دوچار خواتین میں قبل از وقت پیدائش کی شرح کو کم کر سکتا ہے؟

اب تک کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس عورت کے اندام نہانی کے مائیکروبایو میں فائدے مند بیکٹیریا کا غلبہ ہو ان میں حمل کے دوران قبل از وقت پیدائش کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں ایک حاملہ خاتون کے بلڈ گروپ اور قبل از وقت پیدائش کے خطرے کے درمیان بھی تعلق کی نشاندہی کی۔

مثال کے طور پر تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ قبل از وقت پیدائش کا زیادہ خطرہ یا رجحان جن میں تھا ان میں سے اکثر کا تعلق بلڈ گروپ ’بی‘ اور ’او‘ تھا جبکہ بلڈ گروپ اے والی خواتین میں یہ خطرہ کم پایا گیا۔

محققین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلڈ گروپ ’او‘ رکھنے والی خواتین میں مفید بیکٹیریا نسبتاً زیادہ پائے جاتے ہیں۔

دوسری جانب امریکا، برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں سائنس دان یہ جاننے میں مصروف ہیں کہ آیا لیکٹن فائیو ایچ آئی وی (HIV) میں مبتلا ہونے کے زیادہ خطرے سے دوچار خواتین کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے یا نہیں۔

سرگاکی اور گڈفیلو ایسے محققین کے کنسورشیم کا حصہ ہیں جو مائیکروبایوم پر مبنی تشخیصی آلات کی تیاری کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔

نظریاتی طور پر یہ آلات کسی عورت کے اندام نہانی بیکٹیریا کے منفرد ’فنگر پرنٹ‘ کو تیزی اور بغیر تکلیف کے پڑھ سکیں گے اور اسی بنیاد پر اسقاطِ حمل، قبل از وقت پیدائش، بانجھ پن یا سروائیکل کینسر کے خطرات کی پیشگوئی کر سکیں گے۔

اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بروقت تشخیص سے بیماریوں کی زیادہ مؤثر روک تھام ممکن ہو اور ساتھ ہی ذاتی نوعیت کے علاج فراہم کیے جا سکیں۔

سرگاکی کا کہنا ہے کہ ’میں خاص طور پر اس بات میں دلچسپی رکھتی ہوں کہ اس جدید ترین سائنسی تحقیق کو ہم اپنے مریضوں تک تیزی، محفوظ اور مؤثر انداز میں کیسے پہنچا سکتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم آنتوں کے مائیکروبایوم سے پہلے ہی جانتے ہیں کہ بعض بیکٹیریا کی موجودگی کے نشانات مخصوص بیماریوں سے جڑے ہوتے ہیں اور اب ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہی بات اندام نہانی کے مائیکروبایوم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‘

سرویکل سکریننگ میں اب ایچ پی وی ٹیسٹنگ کو بنیادی طریقہ بنا لیا گیا ہے کیونکہ یہ سرویکل کینسر کے زیادہ خطرے سے دوچار خواتین کی نشاندہی کا ایک زیادہ درست طریقہ ہے۔

ادھر اندام نہانی کے مائیکروبایوم کی حفاظت کے حوالے سے کچھ ایسے اقدامات ہیں جو لوگ کر سکتے ہیں جبکہ بعض سے بچنا بہتر کہا جاتا ہے۔

حفظان صحت کے لیے اندام نہانی کی صفائی کے کچھ طریقے مثلاً اندام نہانی کو اندر سے دھونا (ویجائنل ڈوچنگ) بجائے فائدے کے نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ڈوچنگ میں پانی اور صفائی کے بعض کیمیکلز کو اندام نہانی کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اندام نہانی کی صحت بہتر بنانے کے برخلاف ڈوچنگ بعض اوقات وجائنا کی انفیکشن، بچوں کی قبل از وقت پیدائش، اور پیلوک کی سوزش (بچہ دانی کے فلور کو پیلوک کہا جاتا ہے) کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سبب بن جاتی ہے جس سے آگے چل کر بانجھ پن بھی ہو سکتا ہے۔

اسی طرح جیلز، سپرے اور وائپس سمیت خواتین کی ہائیجین کی دیگر مصنوعات بھی اس نازک جراثیمی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اگر کوئی خاتون جنسی طور پر متحرک ہو تو مانع حمل طریقوں کا استعمال اندام نہانی کے مائیکروبایوم کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کنڈوم استعمال کرنے والی خواتین میں لیکٹو بیسیلس کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔ مردوں کے سیمن (مادہ منویہ) میں بھی اپنا ایک مائیکروبایوم ہوتا ہے جو اندام نہانی میں موجود بیکٹیریا کے نازک توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

صحت مند غذا کا استعمال بھی نہایت اہم ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ اگر جسم کو کچھ اہم مائیکرونیوٹرینٹس جیسے وٹامن سی، ڈی اور ای، بیٹا کیروٹین، فولِیٹ اور کیلشیم مناسب مقدار میں نہ ملیں تو اندام نہانی کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح زیادہ چکنائی والی غذا بھی وجائنل انفیکشن کے بڑھتے ہوئے خطرے کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔

بعض مطالعات نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ موٹاپے کا شکار خواتین میں ایسا مائیکروبایوم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس میں لیکٹو بیسیلس کم ہوتے ہیں۔ ایسی تحقیق میں صحت مند باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

بعض تحقیق تمباکو نوشی کو اندام نہانی کے مائیکروبایوم کو متاثر کرنے کی وجوہات بھی بیان کرتی ہیں۔

ایک تحقیق میں تمباکو استعمال کرنے والی اور نہ استعمال کرنے والی 20 خواتین سے اندام نہانی کے نمونے لیے گئے۔

نتائج کے مطابق آدھی تمباکو نوش خواتین میں لیکٹو بیسیلس کی کمی پائی گئی جبکہ تمباکو استعمال نہ کرنے والی خواتین میں یہ شرح صرف 15 فیصد تھی۔

دیگر مطالعات میں تمباکو نوشی کو وجائنل انفیکشن کی زیادہ شرح اور قبل از وقت پیدائش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بھی جوڑا گیا۔

لہٰذا تمباکو نوشی کو ترک کرنا، صحت مند بی ایم آئی برقرار رکھنا اور وٹامنز سے بھرپور غذا لینا اندام نہانی کی صحت کا خیال رکھنے کے مؤثر طریقے ہو سکتے ہیں۔

لورا گڈفیلو کہتی ہیں کہ ’پتّےدار سبزیوں کا زیادہ استعمال ، پوری نیند لینا، مناسب مقدار میں پانی پینا یہ تمام عمومی صحت بخش عادات ممکنہ طور پر آپ کے اندام نہانی مائیکروبایوم کو بھی بہتر بناتی ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US