جانے کیا وقت کا ارادہ ہے
چپ کا اوڑھے ہوئے لبادہ ہے
وقت نے جو ستم کیا مجھ پر
میری سوچوں سے بھی زیادہ ہے
اس کو کب کی میں بھول بیٹھی ہوں
جس نے باندھا ابھی ارادہ ہے
چل رہا ہے وہ ایسے رستے پر
جس کی منزل نہ کوئی جادہ ہے
جس گلی میں وہ شوخ رہتا ہے
اس کا آنگن ابھی کشادہ ہے
جسم کاٹا ہے کیسے یادوں نے
دل کا بکھڑا ہوا برادہ ہے
لوٹ آئے گا ایک دن وشمہ
لوٹ آنے کا جس کا وعدہ ہے