کبھی تو دل کی صدا اس کو دے سنائی میاں
ہے دور تیرا نگر نہ دے دکھائی میاں
ہمیشہ وصل کی گھڑیاں کبھی نہیں رہتیں
وہ عشق کیا ہے جو عمروں کی ہو جدائی میاں
میں تیرے پیارکی قیدی ہوں حال پوچھ مرا
یا پھر سدا کے لیے قید دے رہائی میاں
مجھے تو تیری طلب ہے کچھ اور مانگا نہیں
خدا سے کب یہ کہا ہے جو دے خدائی میاں
کیوں آدمی کبھی انسان بن نہیں پاتا
بتاؤ اس میں بھلا کیا ملے برائی میاں
زباں سے اپنی تو ظاہر ہوں میں بہت وشمہ
دعا ہے رب سے دل کو ہی پارسائی میاں