ہوئے مذاکرات کو اک سال ہو گیا
یعنی تصورات کو اک سا ل ہو گیا
گزرے فراقِ ہجر میں دن رات دوستو
اب تک نہیں کی بات کو اک سال ہو گیا
وابستہ یادیں ہیں مری کیسے بھلاؤں گا
آئی حسیں تھی رات کو ایک سال ہوگیا
ان کا فسوں ہوا نہیں بے کار اب تلک
درویش کی صفات کو اک سال ہو گیا
ملنا ہے سال بعد ہوا ختم رابطہ
ترک تعلقات کو اک سال ہو گیا
شہزاد زیست میری خوشی سے گزری ہے
غم سے ملی نجات کو اک سال ہوگیا