وہ میرے پاس نہیں ہے پھر بھی نہ جانے کیوں اکثر
وہ ہر جگہ میرے ساتھ ہے لگتا ہے مجھے یوں اکثر
صبح سے شام تک کئی چہرے گزرجاتے ہیں سامنے سے
ہر چہرے میں اس کا ہی چہرہ نظر آتا ہے کیوں اکثر
وہ جب سے گیا ہے روٹھ کر میری زندگی سے یاروں
اپنے آپ کو ادھورا سا محسوس کرنے لگا ہوں اکثر
نہ جانے کس بات پر خفا ہے وہ مجھ سے اب تک یاروں
تنہائی میں بیٹھا بس یہ ہی میں سوچتا رہتا ہوں اکثر
وہ جہاں بھی رہے خوش رہے یہ ہی دعا ہے رہی کی
جب بھی اٹھے یہ ہاتھ میرے تو مانگی ہے دعا یوں اکثر