نہیں ہے نامہ ء اعمال میں کوئی نیکی
کہ جو بھی تھی میں نے دریا میں ڈال دی نیکی
نجانے کون گناہوں کی مل رہی ہے سزا
یہ زندگی ہے یا کوئی گلے پڑی نیکی
میں ایک کتے کو انسان سے بچا لایا
یہ ایک دن میں ہوئی مجھ سے دوسری نیکی
میں اپنی پیاس کی شدت کو پی کے مر گیا تھا
پڑی ہوئی ہے وہیں دشت میں تری نیکی
نجانے کتنے گناہوں کی پردہ پوشی کو
امیرِ شہر نے سب کو دِکھا کے کی نیکی