کوئی بھی شام تیری یاد سے خالی نہ گئی
از خیالات تیرے ہونٹ کی لالی نہ گئی
اب بھی آجاتا ہے اکثر تیری باتوں کا خیال
بات کوئی بھی تیری دل سے نکالی نہ گئی
بھول سکتا ہوں میں کیسے تیرا چہرا جبکہ
ان نگاہوں سے تیرے کان کی بالی نہ گئی
لوگ کہنے لگے آوارہ و دیوانہ مجھے
کچھ طبیعت بھی تیرے غم میں سنبھالی نہ گئی
تیرے کہنے پے کیا ترک تعلق سب سے
بات کوئی بھی تیری عشق میں ٹالی نہ گئی
اب بھی رکھتا ہے دل امید وفا ان سے بلال
دیکھو اب تک کہ میری خام خیالی نہ گئی