ہے چاند فلک پر ہی ، اتارا تو نہیں ہے
پانی میں کہیں عکس تمھارا تو نہیں ہے
یہ بات بھی تسلیم کہ ہاں مجھ میں انا ہے
پر تجھ سے بچھڑنا بھی گوارا تو نہیں ہے
ٹوٹی ہوئی کشتی کو تہِ آب ہے جانا
یہ بیچ سمندر ہے، کنارہ تو نہیں ہے
کیوں ایسے ہیں بدلے ہوئے تیور یہ تمہارے
یہ ترکِ تعلّق کا اشارہ تو نہیں ہے
لکھتا ہوں میں جو لفظ بھی اٹھتا ہے دھواں سا
شعلوں کا مرے دل میں گزارا تو نہیں ہے
تم روٹھ گئے مجھ سے تو میں سوچ رہا ہوں
گردش میں کہیں بخت کا تارا تو نہیں ہے
جھلسایا ہے کلیوں کی قباؤں کو یہ کس نے
یہ روپ میں شبنم کے شرارہ تو نہیں ہے
شعروں میں پرو دیتا ہوں میں دل کے سبھی درد
اب اسکے سوا کوئی بھی چارہ تو نہیں ہے