اس کے لفظوں میں خود کو تلاش کرتی رہی
اس کے اک اک اشعار پہ مرتی رہی
نہیں جانتی تھی وہ تو ہے لفظوں کا کھلاڑی
میں اس کے ہاتھ کھیل بنتی رہی
محبت میں کچھ اس طرح توڑ دیا اس نے مجھے
میں جیتی تو تھی لیکن پل پل مرتی رہی
اس کے لفظوں میں تھی کچھ ایسی روانی
میں فریب تحفظ میں اک عمر جیتی رہی
مجھ سے نا ہوا برداشت وہ بات کرے کسی اور سے
چھوٹی سی ناراضگی دوری بڑھاتی رہی
میرے دل کو اس کی یادیں کچھ ایسے جکڑ لیتی ہیں
میں پانی سمجھ کہ آنسو گراتی رہی
لگتا یوں ہے جیسے جدائی مجھے ملی ہے
اس کے دل کو مختلف رفاقتیں لبھاتی رہی
میرے لفظوں کی کیا اہمیت اس کے سامنے
اسے کسی اور کی شاعر تڑپاتی رہی