میری حسرت کے جنازے کو اُٹھانے والے
کتنے بے درد ہیں یہ لوگ زمانے والے
کوئی اپنا ہی نہیں مطلب کی ہے دنیا ساری
اب کہاں ملتے ہیں وہ یار پرانے والے
میں دعا گو ہُوں۔ ہوں مبارک سدا خوشیاں تم کو
ہجر کا درد مجھے دے کے جگانے والے
بس ! یہی سوچ کے ہر بار مناتا تھا اسے
لوٹ کے آتے نہیں رُوٹھ کے جانے والے
اُن کے سینوں میں جھانک کے دیکھو تو کبھی
کتنے افسردہ ہیں اوروں کو ہنسانے والے