میری ادائے ناز ہو یہ بول کر کہاں
کیوں جا رہے وفاؤں میں اب تول کر کہاں
میں تو تمہاری ذات کا ہی انتخاب ہوں
بانہوں میں لے کے آج پھر انمول کر کہاں
صحرا یہ زندگی ہے پلا جاتے ایک بار
اس تشنگی میں پیار کا رس گھول کر کہاں
کربِ جفا میں دیکھنا گھٹ جائے گا یہ دم
رکھ دے صدائے زیست پہ اب کھول کر کہاں
میں تو تمہارے پاؤں میں بکھری سی دھول ہوں
وشمہ ملے گا کیا تجھے اب رول کر کہاں