عجیب شخص تھا وہ محبت سے الجھ کر
نت نئے طریقوں سے خود کو سلجھا رہا تھا
میری آنکھوں کے سامنے میرے چمن میں
وہ شخص میرا ہی ظرف آزما رہا تھا
اپنی ہی محفل میں بیگانہ سا لگا مجھے
وہ اپنی تنہائی کو مجھے سے چھپا رہا تھا
بات بات پے وہ مخا طب کرتا محفل کو
بن سنوار کے وہ مجھے دیکھا رہا تھا
میرے سوا محفل میں تھے سبھی اسکے
ا شا روں کناروں سے وہ مجھے سمجھا رہا تھا
دیما لہجہ جکی نظریں لڑکھڑاتی آواز
لبوں کی ہنسی کے پیچھےخود کو چھپا رہا تھا
یوں تو کٹ رہی ہے دونو ں کی زندگی پرویز
آج مجھے لگا وہ بچھڑ کر پچھتا رہا تھا