تاثیر پھر سے میرے سخن میں لوٹ آئی ہے
جبھی تو دُنیا میرے آنگن میں لوٹ آئی ہے
بہار آئی تو وہ تتلی سی حسیں لڑکی
میرے خیالوں کے چمن میں لوٹ آئی ہے
بھول چکے تھے لب ادائے تبسم کہ اُسکی دید سے
خوشی پھر سے میرے من میں لوٹ آئی ہے
بعد مدت کے اُسے دیکھا تو گرمیءِ طلب
میری جستجو ، میری لگن میں لوٹ آئی ہے
اُسکی یادوں نے آج پھر تھکا دیا ہے مجھے
درد کی اک لہر میرے بدن میں لوٹ آئی ہے
آج اُس کو موضوعِ گفتگو بنایا تو عامر
مٹھاس پھر سے میرے دہن میں لوٹ آئی ہے