قیامت پہ کیا یہ قیامت نہیں ہے
ذرا بھر ہوا میں شرارت نہیں ہے
حقیقت ہے کوئی حکایت نہیں ہے
ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں ہے
جو بدلے اگر رنگ دھرتی تو سمجھو
زمانے میں اس کی تو قیمت نہیں ہے
ستم پر ستم ، پھر ستم کرنے والے
کسی طور تم سے عداوت نہیں ہے
محبت میں رنگِ سخن مٹ گیا ہے
کہ آنکھوں میں دل کی عبارت نہیں ہے
وہ کیسے وفاؤں کا پیکر سجائے
خیالوں میں جس کے حقیقت نہیں ہے
محبت عبادت ہے اپنی یہ وشمہ
کسی دوسرے کی عنایت نہیں ہے