غم ترا ہے اگر نہیں لگتا
اہل دل کا نگر نہیں لگتا
عہدِ ماضی کی یاد زندہ ہے
پیار میں بھی اثر نہیں لگتا
میں تو قیدی ہوں دشتِ فرقت کی
ہجر میں ڈر کے مر نہیں لگتا
اُس کی یادوں کی لاش زندہ ہے
جو کسی در پہ سر نہیں لگتا
اک انا ہی تو پاس تھی میرے
وہ بھی چل دی سفر نہیں لگتا
اپنا چہرہ ہے مشتہر ہی بہت
غم چھپانے کا در نہیں لگتا
زہر پی کر بھی اِس محبت کا
عشق سےبے خبر نہیں لگتا
آج اُس کا بھی ہاتھ ہے وشمہ
میری وحشت کا ڈر نہیں لگتا