Add Poetry

سنو اسکارف پہنے لڑکی

Poet: Suhail Salam By: Suhail Salam, Multan

سنو اسکارف پہنے لڑکی
سنو یہاں سے اٹھ جاؤ
جس بنچ پے آج بیٹھی ہو
اس پے کچھ برسوں پیچھے
میں بھی کبھی بیٹھا تھا
کنٹین کا گرم کپ تھامے
اس کو میں نے سوچا تھا
جب چھت سے یاد ٹپکتی تھی
جب یہ جما ہوا دسمبر
جم گیا تھا کچھ اور بھی
سنو اسکارف پہنے لڑکی
جس بنچ پے آج بیٹھی ہو
اس پے کچھ صدیوں پیچھے
ہم بھی کبھی بیٹھے تھے
وہ جب دسمبر نہ جمتا تھا
وہ جب سورج نکلتا تھا
وہ جب کنٹین کا گرم کپ تھا مے
اسکا سرد ہاتھ تھاما تھا
جب یہ لمبی بھاری زندگی
لگتی تھی مجھ کو چھوٹی
سنو اسکارف پہنے لڑکی
سنو یہاں سے اٹھ جاؤ
جس بنچ پے تم ہو بیٹھی
وہ جگہ ہے محبت والوں کی
محبت کا یہ لمبا بکھیڑا
تمہاری عمر میں صہیح نہیں ہے
سنو نہیں چاہتا میں کہ
آج سے کچھ برسوں آگے
تم بھی گرم کپ تھامے
یاد کرو ٹپکتی یادیں
اور یہ جمتا جاتا دسمبر
جم جائے کچھ اور بھی
سنو اسکارف پہنے لڑکی
 

Rate it:
Views: 220
12 Aug, 2017
Related Tags on Love / Romantic Poetry
Load More Tags
More Love / Romantic Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets