سب راہیں کھوں گئی کہ
میں منزل کی تلاش میں ہوں
کون ہے میرا ہمسفر زندہ
میں جس کی آس پے ہوں
بن خطاء تو سزایئں نہیں ملتی لکی
شاید ! میں اپنی خطاوں کے عذاب میں ہوں
اب ڈھنڈوں کہا میں خود کو
کہ دنیا کی بہیڑ میں گمنام ہوں
میرے ساتھی کتنے آگئے نکل گئے
کہ میں اب تک ماضی میں آباد ہوں
تقدیر کو دوش دوں یا اپنا قصور ڈھنڈوں
میں تو دونوں کے ہاتھوں لاچار ہوں
جس سے بھی محبت کی دل و جان وار دی
اور غضب تو یہ کے ُاسی شخص سے بدنام ہوں
جس کی آس لیے جینے کی دعا کرنے لگے
ُاس نے توڑا ہے ایسا ، کہ مرنے پے تیار ہوں
ہر کوئی جوڑ کر توڑتا رہا لکی یہاں
کس کا ذکر کروں کہ سب کے ہاتھوں شکار ہوں