دیکھو دیکھو آگئی پھربہار کی رت
چھا گئی گلوں پہ نکھار کی رت
بیت گئے بدگمانیوں کے موسم کیسے
دل آنگن میں مہک رہی ہے اعتبار کی رت
پہنچ چکے انجام کو سبھی اندیشے
رہے گی مجھ میں تجھ میں باقی اعتماد کی رت
بے بسی اور مجبوری کا وقت بھی ٹلا
لگ گئی ہے ہمارے نام اختیار کی رت
یوں بھی ہوں برسات کی شدت سے منتظر
تنہا نہیں کٹے گی برکھا بہار کی رت
ہوا کے دوش پہ اڑتی خوشی کی سرگوشی
کہہ رہی ہے آنے والی ہے ملاقات کی رت
اب جارہے ہو تو لوٹ کے آؤ گے کب
میری قسمت نہ بنانا انتظار کی رت
آنکھ لگنے سے پہلے نیند کھلنے سے پہلے رہتی ہے اک سحر
کتنی شوخ ہے پہلے پہلے پیار کی رت