دل ہمارا گوہر غلطان بحر عشق ہے
دم ہمارا شورش طوفان بحر عشق ہے
ڈوب جاتا ہے دل اس کی موج بیتابی کوں دیکھ
بے طرح اے بوالہوس عنوان بحر عشق ہے
اشک نے گرداب باندھا ہے ہمارے آس پاس
کیونکہ نکلا جائے یہ زندان بحر عشق ہے
دل ڈوبانا عشق کے دریا کا ہے گا ابتدا
غرق کرنا جان کو پایان بحر عشق ہے
سیپی آنکھیں اشک موتی دل ہے مرجاں مچھلی آہ
ہم ہیں عاجزؔ کیا بلا سامان بحر عشق ہے