مکاں پہ بھاری ہے وہ لامکاں پہ بھاری ہے
ترا فقیر ہے اور دو جہاں پہ بھاری ہے
اک ایسی بات ہے جو اب زباں نہ روک سکے
اک ایساتیر ہےجو اب کماں پہ بھاری ہے
حسب نسب سے ہی انکار کرنے والا ہوں
میں ایک بوجھ ہوں جو رفتگاں پہ بھاری ہے
یہ پیڑ ٹوٹ رہا ہے ثمر کے آتے ہی
کہ اپنی جان یہاں اپنی جاں پہ بھاری ہے
فقیر لوگ ہیں اور درد دل کا رکھتے ہیں
ہماری جھونپڑی عالی مکاں پہ بھاری ہے
میں خاکدان پہ راضی تو آسمان میں خوش
وہاں پہ بوجھ تھا میں تُو یہاں پہ بھاری ہے