بن کر اُڑے ہیں تتلیاں لمحے کبھی کبھی
کھاۓ ہیں یوں بھی آ نکھ نے دھوکے کبھی کبھی
اُن کو سنا سکے نہ کبھی دِل کی بات ہم
یوں بھی گیۓ ہیں رایگاں جذبے کبھی کبھی
اپنی انا مِٹا کے جھُکے اُن کے سامنے
مانے ہیں یوں بھی دِل کے تقاضے کبھی کبھی
قلب و نظر سے اُٹھتا دِکھایٔ دیا دھواں
بھڑکے ہیں یوں بھی روُح میں شعلے کبھی کبھی
اپنے لہوُ سے بھرنی پڑی زندگی کی مانگ
اُٹھے ہیں چاہتوں کے جنازے کبھی کبھی
عذراؔ نجانے کیوں ہیں وہ آ نکھیں بُجھی بُجھی
چمکے تھے جِس نظر میں ستارے کبھی کبھی