پنچھی چمن کا اب بھی تقاضہ نہ کر ابھی
تجھ پر لکھیں گے وہ بھی فسانہ نہ کر ابھی
اس زیست کے اندھیروں سے مایوس کب ہوں میں
صحنِ وفا میں چاند کا سایہ نہ کر ابھی
تم بھول کر بھی دیکھ لو پھولوں کی باس ہو
کیسے کٹے گی زندگی رسوا نہ کر ابھی
سب بھول جائیں دونوں ہی ماضی کے تذکرے
اس سال کا جواب تو سارا نہ کر ابھی
چلنا ہے میرے ساتھ تو پھر سوچ کر چلو
اس بار اپنے پیار کافسانہ نہ کر ابھی
میں مانتی ہوں زندگی خوابوں میں کٹ گئی
اس کو تو تیرے ہجر میں رسوا نہ کر ابھی
کھڑکی میں چاند آ کے مجھے دیکھتا رہا
آنگن میں روشنی کا اندھیرا نہ کر ابھی
اک شخص میری آنکھ میں ٹھہرا رہا مگر
دیکھا جو آج غور سے تنہا نہ کر ابھی
وشمہ یہ وصل یار کے سب خواب چھوڑ کر
دل کی زمیں پہ ہجر کواپنا نہ کر ابھی