آئینوں جب کوئی تصویر دکھانا اب کے
اصل چہرہ بھی ذرا سامنے لانا اب کے
اور کیا، دے ہی چکے ہو جو اندھیرے کو شکست
ایک لحظہ کو سہی جوت جگانا اب کے
جو بھی آئے ہے خریدے تُجھے ایرا غیرا
گر چکا ہے ترا بھاؤ، یہ اُٹھانا اب کے
دور ہو زلف رسا کی یہ پریشانی کچھ
اس کو سُلجھاؤ تو پھر گُل سے سجانا اب کے
اب کے منجدھار میں پتوار کھوئیے چھوڑو
وقت پر بنتی ہے کیا، سیکھے زمانہ اب کے
چھوڑ دینا کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ کھُلا
گھر مرے دل میں گھٹا تُو جو بنانا ابے اب کے
میری توبہ جو محبت میں کروں پھر اظہر
بس ہے اتنی سی ہی خواہش کہ بچانا اب کے