محبتوں میں بہت بے اصول تھا وہ بھی
کہ رائیگاں تھا، عبث تھا، فضول تھا وہ بھی
کوئی ببول نہ دیکھا جنوں کے رستوں میں
چمن مزاج جہاں تھا تو پھول تھا وہ بھی
مری طرف تو سبھی خوبرو رہے کل تک
حریفِ جاں کے جلو میں قبول تھا وہ بھی
ہمارے شہر کا پانی بھی آج کھارا ہوا
کہ زہر و سم کی طرح سے حلول تھا وہ بھی
میں اس کے عشق میں مٹی بنی رہی برسوں
مری حیات کے رستے کی دھول تھا وہ بھی
نشاطِ شہرِ تغیر کے وسط میں وشمہ
مری طرح سے بہت ہی ملول تھا وہ بھی