جزبہ ء عشق یہ سینے میں مچل سکتا تھا
حسنِ جاناں سے تو پتھر بھی پگھل سکتا تھا
اک محبت سے مجھے تونے ہی آواز نہ دی
حسن تصویر سے باہر بھی نکل سکتا تھا
چاہتا گر وہ مری آنکھ کا سندر سپنا
اپنی حیران طبیعت سے کچل سکتا تھا
وہ ہواؤں میں ہوا بن کے ہی تحلیل ہوا
سایہ بن کر جو مرے ساتھ بھی چل سکتا تھا
آئینہ آنکھ کا گرتے ہی مرا چور ہوا
گر مرا ساتھ نبھاتا تو سنبھل سکتا تھا
مجھ کو بیکار جفا کار نے جلنے نہ دیا
وشمہ آنکھوں میں دیا پیار کا جل سکتا تھا