ہوا کے رخ پہ کھلی زلف یار لگتی ہے
نسیم صبح بہت مشکبار لگتی ہے
ادا ہماری اسے ناگوار لگتی ہے
یہ سادگی بھی اسے کاروبار لگتی ہے
ترے بغیر تو گل بوٹے خار لگتے ہیں
تو ساتھ ہے تو خزاں بھی بہار لگتی ہے
تمام رات ہی کروٹ بدلتے رہتے ہو
تمہارے دوش پہ دنیا سوار لگتی ہے
اداسیوں کا ہے صحرا کسی کے چہرے پر
یہ کائنات بڑی سوگوار لگتی ہے
جسے بھی دیکھیے تر ہے وہ خون میں دانشؔ
یہ ساری بستی ہمیں خار دار لگتی ہے