پڑا رونا، وہیں بیٹھے وہ اب تک ہاتھ ملتا ہے
مقدر کا لکھا پر کوششوں سے کیا بدلتا ہے
نمی آئے نظر کیسے کہ صحرا ہیں مری آنکھیں
مگر صحرا کے پیچھے غم کا اک طوفاں بہتا ہے
مرے اندر ہیں چیخیں اور لب پر گہری خاموشی
مرا دل غم کی سب باتوں کو بس چپ چاپ سہتا ہے
مجھے اس سے گلہ ہو کیوں جو اس نے مجھ کو نہ چاہا
بنا مطلب بھی کیا کوئی کسی سے پیار کرتا ہے
ڈسے ہم ہیں، ڈسے تم ہو، مگر دشمن نہیں ملتا
کہیں باہر نہیں یہ سانپ، گھر آنگن میں پلتا ہے
تمنا کر کے کیا پایا ، تمنا کس لیے آخر ؟
نہ دل ہو سینے میں وشمہ جو صبح شام جلتا ہے