لے آئی ہم کو کہاں یہ اوس کی شائستگی
کہ چھائی ہے سر پہ بے خودی ہی بے خودی
اُگلوا کے دل کی چاہت مار گئے وہ منہ پہ
ہمیں تو لے ڈوبی ہمارے پیار کی وابستگی
میں نے کب کہا کہ تُو میرا ہے
یہی تو ہے بس دل خانہ خراب کی بے بسی
میں نے سمیٹنا چاہا ہے دشتِ اُمنگ کو مگر
میرے وجود سے بڑھ کر ہے سامانِ بے چارگی
منہ موڑا ہے جب سے اُس نے میری محبت سے
ہوئے خواب اور بھی حسیں‘ ملی ہر خوشی
موجود ہوں آفاق میں تو یہ احسان ہے تیرا
ورنہ ہم کہاں دیکھ پاتے یہ رنگینئ زندگی
ہم اُجڑے ہیں شاید اب تک حکمتِ احمقانہ سے
باطل کو سچ کہا اور حقیقت کو توہم پرستی