مجھے عزم ہے عید پہ تیری دید ہونے کا
تیرے نہ چاہتے ہوئے بھی میری عید ہونے کا
ابھی تک سوچ آمادہ ہے پُرانے حصار پہ
انتظار ہے تخیلِ قدیم کے جدید ہونے کا
اِسی آس پہ گزرتی آئی ہوں عصیاں سے
شاید کبھی ملے موقع مُستفید ہونے کا
دل ہے احساس سے‘ پیاس سے‘ اِک آس سے مگر
غم ملتا ہے اِنہی کواکب کے مزید ہونے کا
بُرا ہی کیا ہے گر دل پاس نہ رہے
غم ہی تو نام ہے دل سے نااُمید ہونے کا
ہزاروں موتیں دیکھیں چلتی سانسوں میں
اب کسے ہے ڈر ہلاکتوں کے شدید ہونے کا
شرف حاصل ہے میری آس کو توہم پرستی کا
اور یاس کو غفلت کی نیند ہونے کا