چلے آؤ ، بہار آئی ، نہیں دیکھا زمانے سے
پڑھو خود آ کے لکھے ہیں گلوں پے کچھ فسانے سے
کہا کرتے تھے تم :ـ’’دیکھو حسن کتنا ہے کلیوں میں‘‘
رخ تاباں کو دیکھا کرتے تھے ہم اس بہانے سے
نہیں اب خواب میں آتے جو گزرے پل حقیقت تھے
وہ راتیں جگمگاتی تھیں ، وہ دن بھی تھے سہانے سے
وہ جگنو تیری آنکھوں کے ، وہ برگِ گل لبوں کے بھی
شگوفہ سا بدن بربط ، وہ سانسوں کے ترانے سے
نظاروں کا دریچہ تھی تری زہرہ جبیں جاناں
گلِ عارض حسن کے تھے ہویدا کچھ خزانے سے
بہاروں نے دیئے تحفے ترا آنچل سجانے کو
تری زلفوں کی ٹھنڈک تھی گھٹا کا دل جلانے سے
بہاروں کی جوانی بھی ، ہو جھرنوں کی روانی بھی
تجھی کو ڈھونڈھتے ہیں شب کو تارے سب دیوانے سے
سبو میرے تخیل کا ، ہو پیمانہ سخن کا بھی
مجھے ہستی ملی ہے مٹ کے تیرے آستانے سے
ملی ہے تازگی روح کو ، قرارِ دل بھی حاصل ہے
مری نظروں کا زنگ اترا سرخ آنسو بہانے سے
نہ کعبے میں ، کلیسا میں، نا جا کے دیر و مندر میں
ملے ہے مرتضائیؔ کو خدا بت کو منانے سے