قاعدے تو، نصاب میں کچھ ہیں
زیست میں کچھ، کتاب میں کچھ ہیں
تم کو اپنا میں حال کیا لکھتا
ہم تمہاری جناب میں کچھ ہیں
کیا میں اِن کا کروں یہ بتلا دو
گ ±ل پرانی کتاب میں کچھ ہیں
برسا شب بھر نہ پھر بھی خشک ہوا
قطرے اب تک، سحاب میں کچھ ہیں
شاعروں کی عجب ہی دنیا ہے
خواب میں کچھ، سراب میں کچھ ہیں
اِک پہیلی عجیب ہے گوہر
پِنہاں دریا حباب میں کچھ ہیں
قاعدے تو، نصاب میں کچھ ہیں
زیست میں کچھ، کتاب میں کچھ ہیں
تم کو اپنا میں حال کیا لکھتا
ہم تمہاری جناب میں کچھ ہیں!
کیا میں اِن کا کروں یہ بتلا دو
گل پرانی کتاب میں کچھ ہیں
برسا شب بھر نہ پھر بھی خشک ہوا
قطرے اب تک، سحاب میں کچھ ہیں
شاعروں کی عجب ہی دنیا ہے
خواب میں کچھ، سراب میں کچھ ہیں
اِک پہیلی عجیب ہے گوہر
پِنہاں دریا حباب میں کچھ ہیں