یہ تبسم کی مہربانی ہے
میرے لب پہ نئی کہانی ہے
کیسے اس کو میں معتبر سمجھوں
جس کا ہر وار ہی شیطانی ہے
وہ ہی منکر ہے میری ہستی کا
جس کے کاندھوں پہ راجدھانی ہے
اپنی لغزش پہ کتنا نازاں ہے
رسم دنیا جسے نبھانی ہے
بجھ رہا ہے یہ دوستی کا دیا
کیوں کہ لہجے میں بد گمانی ہے
میری قسمت کا وہ ستارہ ہے
جس کے ہاتھوں میں شب کی رانی ہے
مثل دریا میں بہہ رہی ہوں یہاں
وشمہ آنکھوں میں پانی پانی ہے