زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
Poet: kashif imran By: kashif imran, Mianwaliچمن میں جب بھی غنچے مسکراتے ہیں
نغمے جب بھی بلبل اپنے سناتے ہیں
گل جب باغ میں شبنم سے نہاتے ہیں
پرندے جب ہر طرف گیت گاتے ہیں
جو تیرے ساتھ گذرے تھے مجھے وہ
زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
کلیاں جب کھلتی ہیں بہاروں میں
لطف جب آتا ہے حسیں نظاروں میں
پرندے جب اڑتے ہیں قطاروں میں
نظر جب رکتی ہے چاند ستاروں میں
جو تیرے ساتھ گذرے تھے مجھے وہ
زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
نظر مجھ کو جب کسی میں جمال آتا ہے
یاد مجھ کو پھر قدرت کا کمال آتا ہے
آنکھ میں جب کسی کا رعب و جلال آتا ہے
جب بھی مجھ کو کسی اپنے کا خیال آتا ہے
جو تیرے ساتھ گذرے تھے مجھے وہ
زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
جب بھی کوئی پیار کا گیت گانے لگتا ہے
مجھ پہ بھی اک نشہ سا چھانے لگتا ہے
ہوش جب بھی پی کر میرا جانے لگتا ہے
دل میرا تیری یاد میں ستانے لگتا ہے
جو تیرے ساتھ گذرے تھے مجھے وہ
زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
کسی کو جب بھی میں شاد دیکھتا ہوں
ہر غم و فکر سے جب آزاد دیکھتا ہوں
اپنوں کے ساتھ کسی کو آباد دیکھتا ہوں
بچھڑے ہوؤں کو کرتے یاد دیکھتا ہوں
جو تیرے ساتھ گذرے تھے مجھے وہ
زندگی کی حسیں لمحے تب یاد آتے ہیں
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






