دسمبر آنے سے پہلے آؤ تو بات بنے
مجھے تُم گلے سے لگاؤ تو بات بنے
بے شک نکال دیا تُم نے اپنے دل سے
البتہ دل میرے سے جاؤ تو بات بنے
مجھے تو افسانہ یاد ہے تری جفاؤں کا
کچھ کچھ تُم بھی سناؤ تو بات بنے
صدیوں سے جاگتی نگاہوں کو تُم اگر
شرط لگا کے آج سہلاؤ تو بات بنے
وفاؤں کی دہائی دینے والے ذرا
تُم ہم سے نگاہ ملاؤ تو بات بنے
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے
وفائیں اپنی ذرا گناؤ تو بات بنے
محفل میں جل جائے گے حُسن والے بھی
جاناں! ذرا نقاب اُٹھاؤ تو بات بنے
آنسوؤں کو تھام کے صبر کے دامن سے
گیت میرے لکھے ہوئے گاؤ تو بات بنے
گھر تباہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ظالم
اِس دور میں گھر بناؤ تو بات بنے
بڑا مغرور ہو کے پھر رہا ہے چاند نہال
کومل پَری کو ذرا بلاؤ تو بات بنے