یہ کیس دسمبر 2006 کا ہے جب پولیس نے دہلی کے نواحی شہر نوئیڈا میں ایک بنگلے کی نشاندہی کی گئی جہاں خواتین اور بچوں کو قتل اور ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا جبکہ کچھ پر مبینہ طور پرریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

لگ بھگ 20 سال قبل انڈیا میں پولیس نے ایک بنگلے کے قریب سے خواتین اور بچوں کی 20 لاشیں برآمد کی تھیں۔ لاشوں کی برآمدگی کے بعد یہ بنگلہ بہت سے پراسرار اور ہیبت ناک ناموں سے معروف ہوا۔ مگر یہ معاملہ اب ایک بارپھر شہ سرخیوں میں ہے کیونکہ اس کیس میں مجرم قرار دیے گئے ایک شخص کو سپریم کورٹ نے 20 برس بعد بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے 19 خواتین اور بچوں کے ریپ اور قتل کے الزاممیں سزا یافتہ مجرم سریندر کولی کے اس دعوے کو تسلیم کیا ہے کہ اُن سے آدم خوری (انسانوں کا گوشت کھانا) اور نیکروفیلیا (مرے ہوئے انسانوں کے ساتھ سیکس اور جنسی تعلق) جیسے الزامات میں اعتراف جرم تشدد کے ذریعے کروایا گیا تھا۔
یہ کیس دسمبر 2006 کا ہے جب پولیس نے دہلی کے نواحی شہر نوئیڈا میں ایک ایسے بنگلے کی نشاندہی کی جہاں خواتین اور بچوں کو قتل اور بعدازاں ان کی میتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق مرنے والوں میں سے کچھ کو مبینہ طور پرریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سنہ 2006 کی بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ملزمان کے بنگلے کے عقب میں واقع گٹر اور باغیچے کی کھدائی کے بعد 15 انسانی کھوپڑیاں برآمد کی تھیں۔ اس سے قبل اِسی بنگلے سے بچوں کے کپڑے اور انسانی ہڈیوں سے بھرا ہوا ایک تھیلا بھی ملا تھا۔
اس کے بعد پولیس نے بنگلے کے مالک (جو کہ ایک کاروباری شخصیت تھے) ونندر سنگھ پنڈھیر اور اُن کے ملازم سریندر کولی کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔
سریندر کولی اور مونندر سنگھ پنڈھر کو الزامات ثابت ہونے پر سنہ 2009 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اس کیس کی تفتیش کے دوران سامنے آنے والی تفصیلات نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ان واقعات کے سامنے آنے پرانڈیا بھر سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اس کیس نے انڈیا کی گہری سماجی تقسیم کو بھی بے نقاب کیا تھا۔
قتل کے یہ لرزہ خیز واقعات ایک متوسط علاقے میں پیش آئے تھے جبکہ قتل کیے گئے بچوں اور خواتین میں سے بیشتر کا تعلق قریب واقع غریب علاقوں سے تھا۔
ان دونوں ملزمان کو ریپ اور قتل کے جرم میں سزا ہوئی اور وہ کئی سال قید میں موت کی سزا کے منتظر رہے۔
سنہ 2023 میں مجرم قرار دیے گئے مونندر سنگھ پنڈھیر کوعدالت نے آخرکار ثبوت کی کمی کی بناد پر رہا کر دیا اور اب رواں ہفتے اُن کا ملازم سریندر کولی بھی جیل سے باہر آ گیا ہے، جس کے بعد انڈیا کے سب سے پریشان کن فوجداری مقدمات میں سے ایک کا طویل عدالتی عمل انجام پزیر ہوا۔
بی بی سی نے یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد نتھاری (وہ علاقہ جہاں سے زیادہ تر متاثرین کا تعلق تھا) کا دورہ کیا تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ زیادہ تر متاثرین کے خاندان اب وہاں نہیں رہتے۔
اس محلے میں رہنے والے دو افراد نے بتایا کہ وہ عدالت کے حکم کو قبول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر پنڈھر اور کولی نے یہ کام نہیں کیا تو آخر ہمارے بچوں کو کس نے مارا؟
سریندر کولی کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہےرہائی پانے کے بعد ایک انٹرویو میں مونندر سنگھ پنڈھر نے اپنے بے قصور ہونے پر زور دیا تھا جبکہ اُن کے ملازم سریندر کولی جیل سے نکلنے کے بعد سے کہیں نظر نہیں آئے۔ تاہم سریندر کولی (ملازم) کے وکیل نے کہا ہے کہ آج ثابت ہو گیا کہ اُن کے مؤکل کے خلاف ثبوت گھڑے گئے تھے۔
وکیل نے بتایا کہ اُن کے مؤکل کے خلاف درجن بھر سے زیادہ کیسز مختلف الزامات کے تحت درج کیے گئے تھے۔
وکیل کے مطابق ’19 سال بعد جن 13 کیسز میں انھیں سزائے موت سنائی گئی تھی ان میں سے 12 میں ان کی بے گناہی ثابت ہو چکی تھی۔ ایک مقدمہ باقی تھا، جس میں پانچ عدالتوں نے انھیں مجرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی۔‘
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی ائی سے بات کرتے ہوئے وکیل یوگ موہت نے بتایا کہ ’آج سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں پہلے دیے گئے چار یا پانچ فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین الزامات تھے تاہم تمام شواہد جعلی نکلے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس غریب آدمی کو کسی طاقتور شخص کو محفوظ رکھنے کے لیے پھنسایا گیا تھا۔ ہر ثبوت جعلی تھا، کوئی بھی ثبوت سزا کا جواز نہیں دے سکتا تھا۔ آپ کو یہ سوال سی بی آئی (وفاقی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) سے پوچھنا چاہیے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’یہ واضح ہے کہ سی بی آئی کو اگرچہ معلوم تھا کہ اصل مجرم کون ہے تاہم اس نے ان معصوم لوگوں کے خلاف جان بوجھ کر جھوٹے ثبوت بنائے اور انھیں پھنسایا۔ اس پر سی بی آئی سے باز پرس کرنا چاہیے۔‘
سی بی آئی نے ملزم کی بریت پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
بی بی سی نے اتر پردیش ریاست کی پولیس کو تفصیلی سوالات بھیجے ہیں تاہم ابھی تک وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سنیتااور جھابو لال کی 10 سالہ بیٹی جیوٹی 2005 کی گرمیوں میں لاپتہ ہو گئی تھیںنتھاری نامی علاقے کے بہت سے لوگوں کو اس فیصلے کو قبول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سنیتا کاناؤجیا بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔
سنیتا کی 10 سالہ بیٹی جیوٹی 2005 کی گرمیوں میں لاپتہ ہو گئی تھیں۔ بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ سے تصدیق ہوئی کہ وہ بھی بنگلے میں مارے گئے بچوں میں شامل تھیں۔
سنیتا نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہا کہ ’اگر وہ بے قصور ہیں، تو پھر وہ 18 سال جیل میں کیوں رہے؟ خدا ان لوگوں کو معاف نہیں کرے گا جنھوں نے میری بیٹی کی جان لی۔‘
سنیتا کے شوہر جھابو لال کنوجیہان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے پے در پے ہونے والے قتل کے ان کیسز کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ سریندر کولی کی بریت کی خبر سن کر انھیں شدید مایوسی ہوئی اور انھوں نے اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات جلا دیں جو انھوں نے گذشتہ بہت سے برسوں میں جمع کی تھیں۔
وہ لوگوں کے کپڑے استری کرنے کا کام کرتے تھے اور ماضی میں اُن خوشحال رہائشیوں کے کپڑے استری کرنے کے کام سے وابستہ رہے جو منندر سنگھ پنڈھر کے بنگلے کے بالکل ساتھ واقع تھے۔
اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے کے 15 ماہ تک وہ باقاعدگی سے پولیس سٹیشن جاتے رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب کوئی لاپتا ہو جاتا ہے تو اس دکھ کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ یہ ایک تکلیف دہ زخم کی صورت میں ہمارے اندر سوال چبھوتا ہے کہ نہ جانے وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہوں گے۔‘
سنہ 2006 کے دسمبر کے ایک سرد دن میں وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے کھوپڑیاں، ہڈیاں اور انسانی اعضا نکالنے کے لیے بنگلے کی عقبی نالیوں میں اُتر کر کام کیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ کھوپڑیوں کی تعداد عدالت میں جانے والے 19 مقدمات کے مقابلے میں ’کئی گنا زیادہ‘ تھی۔
آج وہ بار بار سوال کر رہے ہیں کہ ’اگر وہ قصوروار نہیں ہیں، تو پھر کون ہے؟ اور پھر ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہوا۔‘
دونوں ملزمان کی بریت نے جھابو لال کے سکون کا احساس چھین لیا ہے اور پرانے زخم کھول دیے ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے اندر لڑنے کی ہمت باقی نہیں۔ ’میں بوڑھا اور ٹوٹا ہوا آدمی ہوں۔‘
اپنے حکم میں اعلیٰ عدالت نے کہا کہ ’نتھاری میں سنگین جرائم ہوئے اور متاثرہ خاندانوں کی تکلیف ناقابل بیان ہے۔‘
ججوں نے سریندر کولی کو بری کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں نے پہلے زیادہ تر ان کے اعتراف جرم پر انحصار کیا تھا جب انھیں سزا دی گئی تھی۔
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ سب رضاکارانہ تھا۔ ججز کے ریمارکس کے مطابق یہ بیان اس وقت ریکارڈ کیا گیا جب وہ 60 دن کی حراست میں تھا اور ’ایسا لگتا تھا کہ اسے تشدد کا سامنا تھا۔‘
ججوں نے پولیس کی تفتیش پر بھی سنگین سوالات اٹھائے۔
عدالت نے پولیس اور تفتیشی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے ان کی تفتیش کو ناقص قرار دیا اور کہا کہ اس میں ’غفلت اور تاخیر‘ کی گئی جس کی وجہ سے ’اصل مجرم‘ کی شناخت نہیں ہو سکی۔
عدالت کے مطابق تفتیش کاروں نے ’آسان راستہ اختیار کیا اور گھر کے ایک غریب ملازم کو ملوث کر کے اسے شیطان بنا کے پیش کیا۔‘
عدالتی حکم میں یہ بھی بتایا گیا کہ تفتیش کاروں نے ’اعضا کی تجارت کے پہلو سمیت دیگر سراغوں کی جانچ نہیں کی۔ اس وقت کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ لاشوں کو انتہائی درستگی سے کاٹا گیا تھا۔‘
جھابو لال کہتے ہیں ’جب تک غلطی کرنے والے پولیس والوں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔‘
پپو لال کہتے ہیں کہ رچنا کی تلاش آٹھ ماہ بعد D5 بنگلے کے پیچھے والی گلی میں ختم ہو گئی جہاں انھیں اپنی بیٹی رچنا کے کپڑے اور چپل ملےنتھاری میں پولیس کے خلاف عوام کا غصہ کوئی نئی بات نہیں۔
پپو لال کا شمار بھی انھی متاثرہ والدین میں ہوتا ہے جب کی بیٹی رچنا لاپتہ ہو گئی تھی۔ ان کے مطابق جب متاثرہ والدین پولیس سے رابطہ کرتے تھے تو خاص طور پر لڑکیوں کے والدین کے لیے ان کا عمومی جواب یہ ہوتا تھا کہ انھوں نے کسی عاشق کے ساتھ بھاگ کر شادی کی ہو گی۔‘
10 اپریل 2006 کو جب رچنا بنگلے نمبر D5 سے دو گھر دور رہنے والے اپنے دادا دادی سے ملنے گئیں تو اس کے بعد سے ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
محلے میں انھیں تلاش کرنے کے بعد آٹھ سالہ رچنا کا خاندان پولیس کے پاس گیا۔ پولیس نے اس شکایت کے جواب میں کہا کہ ان کی بچی غالبا کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی۔
بی بی سی نے اس حوالے سے پولیس کو سوالات بھیجے تاہم پولیس نے تاحال جواب نہیں دیا۔
پپو لال کہتے ہیں کہ رچنا کو تلاش کرنے کے لیے انھوں نے دوسرے شہروں اور ریاستوں کا سفر کیا۔ ان کی تلاش آٹھ ماہ بعد D5 بنگلے کے پیچھے والی گلی میں ختم ہو گئی جہاں رچنا کے کپڑے اور چپل ملے تھے۔
’فوجداری نظام انصاف پر اعتماد کیسے ہو گا‘
جب اس خوف کی علامت بنے گھر کے عقب سے پہلی بار انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیوں کا مجموعہ برآمد ہوا تو رہائشیوں نے اس گھر پر دھاوا بولا اور پولیس پر بھی حملہ کر دیا۔ اس واقعے کے سامنے آنے پر دو سینیئر افسران کا تبادلہ ہوا جبکہ چھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔
اس کے بعد کیس وفاقی تفتیشی ادارے کے حوالے کر دیا گیا۔
پپو لال کہتے ہیں کہ ’اگر پولیس نے وقت پر کارروائی کی ہوتی تو رچنا سمیت بہت سے بچے بچائے جا سکتے تھے۔‘
سنہ 2006 میں اس علاقے کی ریزیڈنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن کی صدر ارونا ارورا تھیں۔ انھوں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
’یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ اب کوئی فوجداری نظام انصاف پر کیسے اعتماد کر سکتا ہے؟‘
ارونا ارورا کہتی ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں بچوں کے غائب ہونے کی خبروں سے سخت پریشان ہوئیں اور سینیئر پولیس افسران اور ضلع مجسٹریٹ سے ملنے گئیں۔
’لیکن یہ سب بچے غریب خاندانوں سے تھے اس لیے کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ صرف اس وقت ہوا جب ہڈیاں، کھوپڑیاں اور جسم کے حصے ملے جس کے بعد حکام نے کارروائی شروع کی۔‘
پولیس نے بی بی سی کی تبصرے کی درخواست کا تاحال جواب نہیں دیا۔
’انھیں معلوم کرنا ہو گا کہ ہمارے بچوں کو کس نے مارا‘
پپو لال بی بی سی کو محلے میں اس مقام پر لے کر گئے تاکہ قتل میں نمایاں مقامات کی نشاندہی کر سکیں۔
خوبصورت گھروں کی قطار میں موجود D5 نمبرکا چھوٹا سا بنگلہ سالہا سال سے اب ویران اوراجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ 2014 میں لگنے والی آگ سے عمارت کے کچھ حصے جل گئے تھے اور اس کی کالک سے در و دیوار داغدار ہیں۔
بنگلے کا داخلی راستہ اینٹوں اور مٹی کی دیوار سے بند کر دیا گیا ہےجبکہ باہر کی دیوار پر بوگین ویلیا کی بیل میں گلابی پھول کھلے ہیں۔ باہر کھلے نالے میں پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلیں سرمئی کیچڑ میں تیرتی دکھائی دے رہی ہیں جس کی بدبو ہوا میں موجود ہے۔
گھر کے پچھلے حصے کی طرف لے جاتے ہوئے پپو لال نے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں لاشوں کے حصے اور مقتولین کے کپڑے اور دیگر چیزیں ملی تھیں۔
انھوں نے جذبات سے بھرائی آواز میں کہا کہ ’میں اب بھی ان دنوں کی ہولناکی کو نہیں بھول سکتا۔‘
تاہم اس سب کے باوجود پپو لال ہار ماننے کو تیار نہیں۔ ’میں پولیس کے پاس جا کر نئی شکایت درج کراؤں گا۔ انھیں معلوم کرنا ہو گا کہ ہمارے بچوں کو کس نے مارا۔‘
اب وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان سے انصاف حاصل کرنے میں مدد حاصل کی جا سکے۔
’اب ہماری لڑائی حکومت کے ساتھ ہے۔ ان پر یہ بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے۔ کیا ہمارے بچے انڈین نہیں؟‘
پپو لال اور دیگر متاثرین کی مدد کرنے اور ان کے لیے وکلا کا انتظام کرنے والی بیٹر ورلڈ فاؤنڈیشن چیریٹی کے انوپم ناگولیا کا کہنا ہے کہ یہ متاثرہ خاندانوں کی جدوجہد کے سفر کا اختتام معلوم ہوتا ہے۔
’یہ فیصلہ ملک کی سب سے اعلیٰ ترین عدالت نے دیا تھا۔ مجھے اب کوئی اور فورم نظر نہیں آتا جہاں وہ اپیل کر سکیں۔‘
تو انھیں اب کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں انوپم ناگولیا کہتے ہیں کہ ’اب متاثرین کے خاندانوں کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لیے اداس رہیں، ان کے لیے روئیں اور بس غم منائیں۔‘
کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان خاندانوں کے پاس ایک آخری آپشن ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے دوبارہ تحقیقات کا حکم دینے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مدن لوکور کا کہنا ہے کہ اس کوشش سے کوئی نتیجہ نکلنے کا امکان کم ہے۔
ان کے مطابق ’چونکہ اتنا وقت گزر چکا ہے، ثبوت غائب ہو چکے ہوں گے اور دوبارہ تفتیش کا امکانبھی موجود نہیں۔‘