متعدد مذاہب اور سلطنتوں کا حصہ رہنے والا سندھ انڈیا کا حصہ کیوں نہ بنا؟

بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے 14 نکات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مسلمانوں کے مطالبے پر برطانوی حکومت نے 1936 میں سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے الگ صوبے کا درجہ دیا۔ سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت سندھ کو مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔
سندھ، تہذیب
Getty Images
دنیا کی تین اوّلین عظیم تہذیبوں (میسوپوٹیمیا، مصر اور وادیِ سندھ) میں سے وادیِ سندھ کی تہذیب رقبے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وسیع تھی

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے پاکستان کے صوبہ سندھ کو ’تہذیبی طور پر ہمیشہ انڈیا کا حصہ‘ کہنے سے متعلق بیان کو پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ’غیر حقیقی، اشتعال انگیز اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

انڈیا کے وزیرِ دفاع نے سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں (اڈوانی) نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ’سندھی ہندو، بالخصوص اُن کی نسل کے لوگ، آج تک سندھ کو انڈیا سے الگ کرنے کو قبول نہیں کر پائے ہیں۔‘

آگے چل کر انھوں نے مزید کہا کہ ’آج شاید سندھ کی سرزمین انڈیا کا حصہ نہ ہو، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ انڈیا کا حصہ رہے گا۔ اور جہاں تک زمین کی بات ہے تو سرحدیں بدل سکتی ہیں۔ کیا پتا کل کو سندھ پھر سے بھارت میں واپس آ جائے۔‘

انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں اس نئی تلخی کے تناظر میں آئیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے اور تاریخ اور سیاسیات کے ماہرین سندھ کے معاملے پر کیا کہتے ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق موجودہ صوبہ سندھ کا علاقہ، جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا حصہ ہے، وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز تھا۔

اس تہذیب کی نمائندگی ’موئن جو دڑو اور کوٹ ڈیجی جیسے مقامات کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی تہذیب تقریباً 2300 قبل مسیح سے 1750 قبل مسیح تک موجود رہی۔‘

موئن جو داڑو سے بمبئی پریزیڈنسی میں شمولیت تک

موئن جو دڑو کی کھدائی کے بعد سے اب تک 700 کنویں دریافت کیے جا چکے ہیں
Getty Images
خیال کیا جاتا ہے کہ موئن جو دڑو میں کم از کم 40,000 لوگ آباد تھے، اس شہر نے 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح تک ترقی کی

برٹینیکا میں لکھا ہے کہ دنیا کی تین اوّلین عظیم تہذیبوں (یعنی میسوپوٹیمیا، مصر اور وادیِ سندھ) میں سے وادیِ سندھ کی تہذیب ’رقبے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وسیع تھی۔ یہ تہذیب سب سے پہلے1921 میں ہڑپہ (پنجاب) میں دریافت ہوئی اور پھر 1922 میں موئن جو دڑو (موجودہ سندھ میں دریائے سندھ کے قریب) دریافت ہوئی۔‘

سہیل ظہیر لاری اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ تہذیب تقریباً موجودہ پاکستان کے خطے پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب اور مشرق میں موجودہ انڈین صوبوں گجرات، راجستھان اور ہریانہ تک، جبکہ مغرب میں افغانستان تک وسعت رکھتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ گرمیوں میں دریائے سندھ کا پانی سردیوں کے مقابلے میں 16 گنا زیادہ ہو سکتا ہے اور اسی تغیر نے ’منظم آبپاشی اور کاشتکاری کے امکانات کم کر دیے تھے۔ جو علاقے آبپاشی، کاشتکاری اور زرعی بستیوں کے لیے موزوں تھے وہ دراصل چھوٹے دریا تھے۔ اسی لیے ہڑپہ کی تہذیب کی بیشتر بستیاں دریائے سندھ کے مرکزی دھارے سے دور تھیں۔‘

1945 کی تصویر جس میں ایک سندھی خاتون کو ساڑھی پہنے دیکھا جا سکتا ہے
Getty Images
1945 کی تصویر جس میں ایک سندھی خاتون کو ساڑھی پہنے دیکھا جا سکتا ہے

’یہ صورتحال اُس وقت تک رہی جب تک ہڑپائی لوگوں نے 2500 قبل مسیح کے آس پاس ایک انقلابی فیصلہ نہ کر لیا: یعنی ہڑپہ اور موئن جو دڑو کو پہلے سے طے شدہ نقشے کے مطابق مرکزی شہری مراکز کے طور پر تعمیر کرنا، تاکہ دریائے سندھ کو آمد و رفت اور تجارتکے لیے استعمال کیا جا سکے۔‘

’انتظامی طور پر، اس فیصلے نے دریائے سندھ کے دونوں اطراف آباد ہڑپائی بستیوں کو آبی مواصلات کے جال کے ذریعے باہم جوڑ دیا جو اس خطے میں، جہاں بارشوں اور سیلابوں کے دوران زمین سمندر کی مانند بن جاتی تھی، نقل و حمل کا سب سے موزوں طریقہ تھا۔‘

’اس سے ہڑپہ کی تہذیب کو یہ سہولت بھی ملی کہ وہ سمندری ساحل کے ساتھ ساتھ ایک طرف خلیجِ فارس تک اور دوسری طرف دکن کے خطے تک پھیل سکے۔‘

برٹینیکا کے مطابق اِس کے بعد تاریخی ریکارڈ میں ایک ہزار سال سے زائد کا وقفہ ہے۔

’پھر سندھ کی (ایرانی) ہخامنشی سلطنت میں شمولیت کا ذکر ملتا ہے، جب دارا اوّل نے چھٹی صدی قبل مسیح کے آخر میں اسے فتح کیا۔‘

’تقریباً دو صدی بعد، سکندر اعظم نے 326 اور 325 قبل مسیح میں اس خطے کو فتح کیا۔ اُن کی وفات کے بعد سندھ پر سلوقس اوّل نیکیٹر، چندرگپت موریا (تقریباً 305 قبل مسیح)، پھر تیسری تا دوسری صدی قبل مسیح میں ہند-یونانی اور پارتھی حکمرانوں، اور بعد ازاں پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک سیتھین اور کشان حکمرانوں کا تسلط رہا۔‘

1930 کی دہائی کے دوران کراچی کے ساحل پر بحری جہاز لنگر انداز
Getty Images
1930 کی دہائی کے دوران کراچی کے ساحل پر موجود بحری جہاز

’پہلی صدی مسیح میں کُشان دور میں سندھ کی آبادی نے بدھ مت اختیار کر لیا۔ تیسری سے ساتویں صدی تک یہ علاقہ ایرانی ساسانی سلطنت کے زیرِ حکمرانی رہا۔‘

برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 711 میں عربوں کی سندھ میں آمد نے برصغیر میں اسلام کے داخلے کی بنیاد رکھی۔ 712 سے تقریباً 900 تک سندھ اموی اور عباسی سلطنتوں کے صوبہ الِسند کا حصہ رہا جس کا دارالحکومت موجودہ حیدرآباد سے 72 کلومیٹر شمال میں واقع المنصورہ تھا۔

’خلافت کی مرکزی طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد، دسویں سے 16ویں صدی تک الِسند کے عرب گورنروں نے خطے میں اپنی مقامی اور خاندانی حکمرانی قائم کر لی۔‘

’16ویں اور 17ویں صدی میں (1591–1700) سندھ مغلوں کے زیرِ حکومت رہا، جس کے بعد اسے کئی آزاد سندھی ریاستی خاندانوں نے چلایا۔ یہاں تک کہ 1843 میں آخری سندھی حکومت کو برطانوی فوج نے شکست دی۔ اس وقت سندھ کے بیشتر حصے کو بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کر دیا گیا۔‘

سندھ نے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟

جناح نے اپنے 14 نکات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
Getty Images
جناح نے اپنے 14 نکات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا

بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنے 14 نکات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلمانوں کے مطالبے پر برطانوی حکومت نے 1936 میں سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے الگ صوبے کا درجہ دیا۔ سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت سندھ کو مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔

محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد علی شیخ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بدھ مت کے راجا سہاسی دوم کے 28 سالہ دورِ حکومت میں ریاست کے زیادہ تر معاملات اُن کے وفادار برہمن وزیر چچ کے سپرد تھے۔ تقریباً 642 میں چینی زائر ہسوان تسانگ سندھ آئے اور انھوں نے لکھا کہ یہاں ’لاتعداد سٹوپے‘ اور ’سینکڑوں سنگھارامے جن میں تقریباً دس ہزار راہب رہتے تھے‘ موجود تھے۔

برطانوی مؤرخ جان کیے اپنی کتاب ’انڈیا اے ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ بدھ مت سندھ کا سب سے غالب مذہب تھا مگر ہندو ازم بھی موجود تھا، اور یہاں تقریباً ’تیس ہندو مندر‘ تھے۔

ساتویں صدی میں سندھ کی سلطنت میں تقریباً پوری وادی سندھ شامل تھی، ماسوائے شمالی حصے کے۔ تخت نشین ہونے کے بعد جب چچ نے فتوحات شروع کیں تو انھوں نے اپنے ملک کی سرحدیں متعین کرنے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا: مختلف خطوں کے مطابق موزوں درخت لگا کر۔

اسی سیاق و سباق میں کیے لکھتے ہیں کہ ’اگر شمال مغرب میں صرف قدیم گندھارا کا علاقہ شامل ہو جاتا تو چچ کی ریاست ایک طرح کا پروٹو پاکستان بن جاتی۔‘

مؤرخ اور تاریخ کے استاد ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز و محور وہ علاقہ ہے جو اب پاکستان ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس میں پنجاب بھی ہے، بلوچستان بھی، خیبرپختونخوا بھی، ٹیکسلا کی تہذیب کے حوالے سے، اورسندھ، موئن جوداڑو وغیرہ۔ یہ مرکز ہے، سرچشمہ ہے، اور یہاں سے وادی سندھ کی تہذیب ابھری اور پھیلی، اور اس کے اثرات گجرات تک گئے۔‘

’تہذیبی طور پر یہ علاقہ اگر مجتمع ہے تو یہ بہت ہی فطری سی بات لگتی ہے۔ بہت ہی غیر فطری ہو گا کہ سندھ الگ ہو کر انڈیا کے ساتھ چلا جائے۔ تاریخی طور پر اگر تہذیب کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘

’سندھ کا مطلب علاقہ یا صوبہ سندھ نہیں ہے، سارا علاقہ ہے جو سندھ طاس تہذیب کا محور و مرکز تھا، جس میں پنجاب ہے، بلوچستان ہے، اور جس میں سندھ بھی ہے۔ اس کی اجتماعی تہذیبی اکائی وہی ہے، جہاں پہ پاکستان بنا ہوا ہے۔ اس مرکز سے جوتہذیبی سوتے پھوٹے، انھوں نے آگے جا کر اپنے اثرات دوسری جگہوں پر مرتسم کیے۔‘

سنہ 1927 میں سندھ کے شہر حیدرآباد کے مناظر
Getty Images
سنہ 1927 میں سندھ کے شہر حیدرآباد کے مناظر

ان کی رائے ہے کہ انڈین وزیر دفاع راج ناتھ نے ’بس ایک پُھلجھڑی چھوڑ دی ہے جس کے پیچھے کوئی علمی گہرائی یا گیرائی نظر نہیں آتی ہے۔‘

سندھ کے ماہر سیاسیات ڈاکٹر امیر علی چانڈیو کہتے ہیں کہ انڈیا کے وزیر دفاع کا یہ بیان ’سراسر سامراجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے‘ اور اس میں واضح طور پر ’قبضہ خوری کی بُو محسوس ہوتی ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سندھ ’کبھی ہندوستان یا انڈیا کا حصہ نہیں رہا۔‘

’اگر کبھی مختصر عرصے کے لیے مغل سلطنت نے سندھ پر قبضہ کیا بھی، تو سندھی عوام نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ شاہ عنایت شہید، جنھیں تاریخ کا پہلا سوشلسٹ صوفی کہا جاتا ہے، نے جاگیردارانہ نظام اور مغل بالادستی— جو اس نظام کی پشت پناہی کر رہی تھی— کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی۔‘

چانڈیو کے مطابق سنہ 1843 میں جب برٹش ایمپائر اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ پر قبضہ کیا، اُس وقت بھی سندھ ایک آزاد ملک اور الگ وطن تھا، انڈیا کا حصہ نہیں تھا۔

’سنہ 1847 میں سندھ کو عوام کی خواہشات کے خلاف سازش کے تحت جبراً بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف سندھ کے عوام نے طویل جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں سندھ کا جداگانہ تشخص بالآخر بحال ہوا۔‘

’اس کے بعد بھی سندھ نے انگریزوں کے خلاف نہ صرف پارلیمانی اور جمہوری جدوجہد کی، بلکہ حروں کی مسلح تحریک بھی سندھ کی مزاحمتی تاریخ کا روشن باب ہے۔ حتیٰ کہ انگریزوں کو سندھ میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا، مگر سندھ نے غلامی قبول نہیں کی۔‘

چانڈیو بتاتے ہیں کہ سنہ 1940 کی قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) کو سب سے پہلے قبول کرنے والوں میں سندھ کے عوام شامل تھے۔ اس سے پہلے 1938 میں بھی سندھ اسمبلی یہ اعلان کر چکی تھی کہ ’ہم ہندوستان کے ساتھ نہیں رہیں گے۔‘

’بانی پاکستان کا تعلق بھی سندھ سے تھا اور تین مارچ 1943 کو پاکستان کے حق میں سب سے پہلی قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کی، جسے جی ایم سید نے کلیدی کردار ادا کر کے پاس کرایا۔‘

’سندھ نے کبھی ہندوستان کی بالادستی قبول نہیں کی‘

چغتائی مرزا اعجاز الدین کی تحقیق ہے کہ متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے صوبہ سندھ ہی نے ایک آزاد مسلم ریاست کے حق میں قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی۔

’بانی پاکستان کا یہ مؤقف کہ ہندوستان کبھی ایک متحد قوم نہیں رہا اور مسلم ہندوستان ہمیشہ ایک الگ اکائی رہا ہے — اس کی گونج جی ایم سید کے بیان میں بھی سنائی دی، جو اس وقت مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ایک ممتاز سندھی رہنما تھے۔‘

’جی ایم سید نے کہا کہ موئن جو دڑو سے منکشف ہونے والی وادی سندھ کی تہذیب اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے علاقے کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے۔ اور یہ کہ سندھ، پنجاب، افغانستان اور سرحد مشرقِ بعید کا نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا حصہ تھے۔‘

’برصغیر کے تمام صوبوں میں صرف سندھ اسمبلی ہی نے 3 مارچ 1943 کو، جی ایم سید کی پیش کردہ قرارداد کے ذریعے، لاہور قرارداد کی طرز پر پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔‘

’بعد ازاں 26 جون 1947 کو سندھ اسمبلی نے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ نئی پاکستان دستور ساز اسمبلی کا حصہ بنے گی۔ یوں سندھپاکستان میں شامل ہونے والا پہلا صوبہ بنا۔‘

’سندھ کے وہ ارکان جنھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، پاکستان کے بانیانِ قوم ہیں۔ وہ یہ تھے: غلام حسین ہدایت اللہ، محمد ایوب کھوڑو، میر بندہ علی خان تالپور، پیرزادہ عبد الستار، محمد ہاشم گزدر، پیر الٰہی بخش، میران محمد شاہ، محمود ہارون، قاضی محمد اکبر، خان صاحب غلام رسول جتوئی، سردار قیصر خان گزدر، میر جعفر خان جمالی، سردار نبی بخش سومرو، غلام محمد وسان، سردار نور محمد بجارانی، غلام نبی ڈھیراج— اور سپیکر آغا بدر الدین جنھوں نے اجلاس کی صدارت کی۔‘

چانڈیو بتاتے ہیں کہ ’آج بھی سندھ کے لوگ اگر کہتے ہیں تو یہی کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں، بس ہمیں قراردادِ 1940 کے تحت ہمارے آئینی و سیاسی حقوق دیے جائیں۔‘

’یوں سندھ، جو ایک آزاد وطن تھا اور انگریزوں کے قبضے میں تھا، رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بنا۔ پاکستان کی تحریک میں بنگال کے ساتھ ساتھ سندھ کا کردار بھی نمایاں اور تاریخی ہے۔‘

’سندھ کے عوام نے کبھی ہندوستان کی بالادستی قبول نہیں کی۔ انڈیا کی سامراجی خواہشات آج بھی انھیں قبول نہیں، نہ کبھی ہوں گی۔ انڈیا کا حصہ بننے، یا اس کے کسی تسلط کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

چانڈیو کے مطابق سندھ تاریخی طور پر ایک آزاد وطن رہا ہے اور رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شامل ہوا تھا۔

دانشور وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ اگر انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی منطِق کو درست سمجھا جائے تو مستقبل میں دلی، اَوَدھ اور حیدر آباد دکن پاکستان کا حصہ بن سکتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ تاریخ کا سفر پرانے مخطوطوں کی روشنی میں آگے نہیں بڑھتا۔ ’پون صدی قبل ہندوستان تقسیم ہو گیا اور دو قومی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ اس وقت کی قیادت نے یہ فیصلہ تسلیم کر لیا۔‘

’گذشتہ سات دہائیوں میں دونوں ممالک کی سیاست، معیشت اور تمدن میں منفرد خطوط نمودار ہوئے ہیں۔ اب راج ناتھ جیسی باتوں سے سوائے غیر ضروری تلخی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘

وجاہت مسعود کا مشورہ ہے کہ بہتر ہے کہ دونوں ملک اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنا سیکھیں اور اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کریں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US