400 ارب ڈالر کے کیش ٹرانسفر منصوبے جن کی بنیاد پر نریندر مودی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں

سنہ2014 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی نے انڈیا میں عوامی فلاح کے منصوبوں کو وسعت دی ہے، خاص طور پر وہ منصوبے جو خواتین اور کسانوں کی بہبود کے لیے تھے۔ اس میں کھانا پکانے کے لیے مفت گیس کی فراہمی، غریب گھرانوں کو مفت اناج، گھر، بیت الخلا، پانی، بجلی کی فراہمی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

برسوں کے انتظار کے بعد شاید اب بلرام بھلّوی اور اُن کے خاندان کو رہنے کے لیے چھت مل ہی جائے گی۔

فی الحال بلرام بھلوی اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ انڈیا کی وسطیٰ ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں بنی جھونپڑی میں رہ رہے ہیں۔

کچے فرش والے اس جھونپڑی نما کمرے میں ہی ایک سائیڈ پر باورچی خانہ ہے، یہاں چند پلاسٹک کی کرسیاں پڑی ہیں، دو پلنگ ہیں اور ساتھ میں میلے کپڑوں کا ڈھیر۔

تین سال کے انتظار کے بعد، بھلوی اور ان کے خاندان وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے ذریعے چلائے گئے ایک پروگرام کے تحت ایک لاکھ 20 ہزار روپے ملے ہیں، جن نے انھیں اپنا نیا گھر بنانے کے قابل کیا ہے۔

’پردھان منتری آواس یوجنا‘ نامی ہاؤسنگ پروگرام کے تحت انڈیا میں سنہ 2016 سے لے کر اب تک ڈھائی کروڑ سے زیادہ چھوٹے گھر تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ یہ ہاؤسنگ پروگرام اُن 300 سے زائد عوامی فلاح کی سکیموں میں سے ایک ہے جن کا تذکرہ نریندر مودی عام انتخابات کی مہم کے دوران بارہا کر رہے ہیں۔

اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے 42 سالہ بھلوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زندگی کٹھن ہے۔ مگر میں حکومت کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اپنا پہلا گھر بنانے کے لیے رقم دی۔‘

سنہ2014 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی نے انڈیا میں عوامی فلاح کے منصوبوں کو وسعت دی ہے، خاص طور پر وہ منصوبے جو خواتین اور کسانوں کی بہبود کے لیے تھے۔ اس میں کھانا پکانے کے لیے مفت گیس کی فراہمی، غریب گھرانوں کو مفت اناج، گھر، بیت الخلا، پانی، بجلی کی فراہمی جیسے منصوبے شامل ہیں۔

پنشن، سبسڈی، قرض اور سکالرشپ کی فراہمی جیسی سکیموں سے ایک ارب سے زائد انڈین شہریوں نے فائدہ اٹھایا۔

اور اب تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے وہ ان تمام سکیموں کی تشہیر الیکشن مہم کے دوران کر رہے ہیں۔

نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اُن کی حکومت نے گذشتہ دس برسوں میں کم آمدنی والے گھرانوں کو براہ راست 34 کھرب روپے کے منصوبے دیے جن میں نقد رقوم کی فراہمی بھی شامل ہے۔ ملک میں 11 کروڑسے زائد کسانوں کو سالانہ 6,000 روپے کی فراہمی دنیا کے سب سے بڑے نقد رقوم کی منتقلی پروگراموں میں سے ایک ہے۔

ماہر اقتصادیات اروند سبرامنیم اِسے نریندر مودی کا ’نیو ویلفیئر ازم‘ کہتے ہیں، جس میں پرائمری تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات سے زیادہ بیت الخلا جیسی انتہائی ضروری اور نجی ضرورت کی اشیا پر توجہ دی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یقینی طور پر مودی کا ’نیو ویلفیئر ازم‘ یورپ یا امریکہ میں روایتی فلاحی ماڈل سے مختلف ہے۔

نریندر مودی کے بعد انڈیا کی تمام سیاسی جماعتوں کو وہ مرض لاحق ہو چکا ہے جسے جان ہاپکنز یونیورسٹی کے دیویش کپور نے ’کیش ٹرانسفر کا وائرس‘ قرار دیا ہے۔ انڈیا کی ریاستی حکومتیں مجموعی طور پر اس وقت 20 ہزار سے زیادہ کیش ٹرانسفر پروگرام چلا رہی ہیں۔ دیویش کپور کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی ہر سیاسی جماعت جانتی ہے کہ ووٹر کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت ہے۔‘

مغربی بنگال کے بشنوپور میں صبح کے وقت 100 سے زیادہ مرد، خواتین اور بچے ایک سکول کے میدان میں نیلے اور سفید رنگ کے خیمے تلے جمع تھے۔ اس تقریب کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جشن جیسا ماحول ہے لیکن یہ ایک فلاحی کیمپ تھا جس کا انتظام 10 کروڑ آبادی والی ریاست پر حکومت کرنے والی ممتا بنیر جی کی ترینمول کانگریس جماعت نے کر رکھا تھا۔

مسلسل تیسری بار جیتنے والی ممتا بنیر جی نے فلاحی کاموں کو ترجیح دے رکھی ہے اور اس وقت تین درجن سے زیادہ سکیمیں چلائی جا رہی ہیں جن میں سکول جانے کے لیے مفت سائیکل کی فراہمی، لڑکیوں کے لیے وظیفے، معاشی امداد، خواتین، بوڑھوں اور معزور افراد کے لیے پنشن سمیت طبی انشورنس کی سہولیات شامل ہیں۔

بشنوپور ضلعکے سینئر افسر نذیر الدین سرکار کا کہنا ہے کہ ’ہم پیدائش سے موت تک کے معاملات میں لوگوں کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘

عوام کو دوردراز سرکاری دفاتر تک سفر کی سہولت فراہم کرنے کے لیے مغربی بنگال کی حکومت نے ’دوارے سرکار‘ نام سے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کا مطلب ہے ’سرکار آپ کے دروازے پر۔‘ تین سال میں 10 کروڑ لوگوں نے 23 اضلاع میں ساڑھے چھ لاکھ کیمپوں میں خود کو فلاحی سکیموں کے لیے رجسٹر کروایا ہے۔

بشناپور کے اس کیمپ میں ان فلاحی سکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی زندگی کی ایک جھلک ملتی ہے۔

شوبھا مونڈل کہتی ہیں کہ بطور بیوہ ملنے والی پنشن کی مدد سے وہ اپنے بیٹے کو سکول بھیج رہی ہیں۔ مونیکا ٹیتھی کو تین مختلف پینشنیں ملتی ہیں۔ ایک بطور کسان، ایک قبائلی فرد ہونے کی وجہ سے اور تیسری بیوہ ہونے کے باعث۔ وہ گاؤں میں دکان چلاتی ہیں۔ دپالی مونڈل بھی بیوہ ہیں اور اپنی پنشن سے کھانے کی ریڑھی چلاتی ہیں۔

سرکاری اہلکار چوتن دھنیدپ لاما کہتے ہیں کہ ’جب بوڑھی یا بیوہ عورتوں کو پیسہ ملتا ہے تو گھر میں ان کی زیادہ عزت ہوتی ہے۔ پنشن سے ان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

سینکڑوں میل دور انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے ساحلی شہر وشاکاپٹنم میں اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنانے کا خواب دیکھنے والی لکشمی کی امیدیں بھی ایک فلاحی سکیم سے جڑی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہیں جو سن نہیں سکتے اور بولنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کے دو بچے سکول جاتے ہیں اور بیوہ ساس بھی ان کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ شوہر کو معذوری کی وجہ سے اور بیوہ ساس کو ماہانہ ملا کر چھ ہزار روپے پنشن ملتی ہے جس سے گزر بسر ہوتا ہے۔

وائے ایس جگن موہن ریڈی کی وائے ایس آر کانگریس پارٹی ریاست پر حکومت کرتی ہے جس نے دو درجن سے زیادہ ایسی سکیمیں متعارف کروا رکھی ہیں۔ ان میں ڈائلسس کروانے والے گردوں کے امراض میں مبتلا افراد کو ماہانہ ادائیگی بھی شامل ہے۔

لکشمی جیسی ماؤں کے لیے حکومت کی وہ سکیم بہت اہمیت رکھتی ہے جس کے تحت انھیں ماہانہ 15 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ان کا 17 سالہ بیٹا، وامسی، ملک کے بہترین انجینئرنگ سکول انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لکشمی کو امید ہے کہ حکومت سے ملنے والا پیسہ ان کے بیٹے کا خواب پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔

نریندر مودی کو انڈیا کا فلاحی نظام ورثے میں ملا تھا جس میں مفت کھانا، بجلی، کاشت کاری پر سبسڈی، دیہی مکانات اور روزگار جیسی سکیمیں شامل تھیں لیکن مودی نے اس نظام کو اور وسعت دی۔

سروے ظاہر کرتے ہیں کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد کھانے کے صاف تیل اور ٹوائلٹ کا استعمال اور خواتین کی بینکوں تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ مفت سائیکلوں کی فراہمی کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں سکول اور کالج جانے والی لڑکیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔

تاہم یہ سکیمیں کس حد تک سیاسی جماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ کرتی ہیں، اس کے شواہد ملے جلے ہیں۔ انڈیا کے انتخابات میں جیت کا دارومدار کسی ایک بات پر نہیں ہوتا کیوں کہ ذات اور مذہبی شناخت سمیت دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔

سنہ 2019 میں پولنگ گروپ لوکنیتی سی ایس ڈی ایس کے ایک سروے سے پتہ چلا کہ بی جے پی نے اس سال کے الیکشن میں مودی کی مقبولیت اور فلاحی سکیموں کی وجہ سے زیادہ خواتین ووٹروں کی حمایت حاصل کی۔ تاہم مغربی بنگال میں ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ریاست میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں فلاحی سکیموں سے زیادہ نظریے اور شناخت کی سیاست کا کردار تھا۔

گذشتہ سال کرپشن الزامات کے بیچ بی جے پی کرناٹکا ریاست میں فلاحی سکیموں کے باوجود ہار گئی تھی۔ آندھرا پردیش میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ آیا صرف فلاحی سکیموں کی مدد سے وائے ایس جگن موہن ریڈی جیت پائیں گے جہاں روزگار اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ فلاحی سکیمیں کام کرنے کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

ماہر معیشت اروند سبرامنیئم کا کہنا ہے کہ ’سیاسی رہنماؤں کو ان سکیموں سے سیاسی فائدہ ہوا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان سکیموں کے فوائد میں کمی آئی ہے۔ گورننس یعنی طرز حکمرانی اور دیگر چیزوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔‘

وہ ان سکیموں کے مقابلے کے بارے میں بھی خبردار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوامی فنڈز پر بہت زیادہ سکیموں کا بوجھ ہے۔ انڈیا کا پبلک قرض جو وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے قرض کو ملا کر بنتا ہے، آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق جی ڈی پی کے 80 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ گذشتہ دسمبر کی ایک رپورٹ میں آئی ایم ایف نے اس معاملے کی نشان دہی کی اور خطرات کی جانب اشارہ کیا۔

ماہر معیشت اروند سبرامنیئم کہتے ہیں کہ ’ریاستیں آگ سے کھیل رہی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔‘

کیا یہ نظام سرکاری خزانے پر بوجھ ہے؟ اس سوال پر ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کے لیے یہ سکیمیں ناکافی ہیں اور نظام صحت کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں بھی سرمایہ کاری ضروری ہے۔

بہت سی سکیموں میں مسائل بھی ہیں۔ وشاکاپٹنم میں سرکاری امداد وصول کرنے کے باوجود لکشمی اور ان کے گھر والوں کو ایک خطیر رقم پینے کا پانی خریدنے پر خرچ کرنا پڑتی ہے کیوں کہ پانی کا کنکشن نہیں ہے۔ وہ ہمسائیوں کے اپارٹمنٹ میں ٹائلٹ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے گھر میں ٹائلٹ نہیں۔

ساتھ ہی ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی ہوئی آمدن کا مطلب ہے کہ ان سکیموں کی بھی ایک حد ہے۔ مدھیا پردیش میں گھر بنانے کے لیے بھلوی کو سرکار سے پیسہ ملا تھا جو خود مزدوری سے روز پانچ سو روپے کماتے ہیں۔ اپنی زرعی زمین ہونے کے باوجود خراب موسم اور کھاد کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے کاشتکاری کرنا ان کے لیے سودمند نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سرکاری مدد کے باوجود اپنا گھر تعمیر کرنے کے لیے ان کو سالانہ 12 فیصد سود کی شرح پر 80 ہزار کا قرض لینا پڑے گا۔ ان کی اہلیہ، لکھپتی بائی، کہتی ہیں کہ گیس پر حکومتی سبسڈی کے باوجود بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سلینڈر بھروانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’ہم زیادہ تر مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتے ہیں۔‘

سنہ 2022 میں انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے فلاحی سکیموں پر حکومتی رویے کا دفاع کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا تھا کہ ’ہم نے گیس کا کنکشن دیا، بجلی دی اور اب یہ لوگوں پر فرض ہے کہ وہ بل دیں۔ ہم نے ٹوائلٹ بنائے لیکن ان کی دیکھ بھال کرنا لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے صرف ان کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے مدد فراہم کی اور یہی طاقت دینے کا طریقہ ہے۔‘

انڈیا کی حکومت جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم صحت پر خرچ کرتی ہے جبکہ تعلیمی بجٹ بھی کم کیا جا چکا ہے۔ 2028 تک 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج فراہمی کا پروگرام ایک ایسی دیہی معیشت کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مشکلات کا شکار ہے۔

دیویش کپور کا ماننا ہے کہ ’کیش ٹرانسفر ایک قلیل مدتی حل بن چکا ہے اور طویل مدتی مشکل حل جیسا کہ زراعت، تعلیم اور نظام صحت میں سرمایہ کاری کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سب کے لیے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے جو ایک مشکل کام ہے۔ اسی لیے نیو ویلفیئرزم کی اتنی تعریف کے باوجود یہ پریشانی موجود ہے کہ یہ سب طویل المدتی ترقی کے لیے درکار نظام بنانے کی قیمت پر کیا جا رہا ہے۔‘

شاید انڈیا کے زیادہ تر شہری ان کی اس بات سے اتفاق کریں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.