ڈیجیٹل انقلاب، برآمدات اور عدم مساوات: مودی کی اقتصادی پالیسی نے انڈیا کو کیسے تبدیل کیا

وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو وراثت میں ایک ایسی معیشت ملی جو کمزور بنیادوں پر تھی۔ ترقی کی رفتار سست تھی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ انڈیا کے تقریبا ایک درجن ارب پتی دیوالیہ ہو چکے تھے اور اس سب کی وجہ سے ملک کے بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لیے گئے جن کی واپسی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
انڈیا
BBC

رواں سال کے آغاز پر جنوری کی شدید سردی میں دہلی کے لال قلعے پر ہزاروں لوگ انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوئے۔

وزیر اعظم مودی نے اس بڑے اجتماع میں ’ڈیویلپڈ انڈیا 2047‘ یا ’ترقی یافتہ انڈیا 2047‘ کا پیغام دیتے ہوئے 2047 تک ملک کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بنانے کا وعدہ کیا۔

انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی ہر مرتبہ اپنے خطاب کے دوران ایک نئے انداز سے یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ ’ترقی یافتہ انڈیا‘ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جس پر مختلف انداز میں بات کی جاتی رہی ہے۔ تاہم ایک دہائی پہلے اقتدار میں آنے والے نریندر مودی نے گذشتہ 10 سالوں میں تیزی سے اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھنے کی بات متعدد بار کی ہے۔

وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو وراثت میں ایک ایسی معیشت ملی جو کمزور بنیادوں پر تھی۔ ترقی کی رفتار سست تھی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔

انڈیا کے تقریبا ایک درجن ارب پتی دیوالیہ ہو چکے تھے اور اس سب کی وجہ سے ملک کے بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لیے گئے جن کی واپسی میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

ان واجب الادا قرضوں کی وجہ سے بینکوں کی تاجروں کو زیادہ قرض دینے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی تھی۔

انڈیا
BBC

اب دس سال بعد انڈیا کی ترقی کی شرح دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں تیز ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔

انڈیا کے بینک اب ایک مضبوط معاشی حالت میں ہیں اور انتہائی تکلیف دہ کورونا وبا کا سامنا کرنے کے باوجود انڈیا میں حکومتی خزانہ مستحکم ہے۔

گذشتہ سال انڈیا برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بنے میں کامیاب ہوا تھا۔

مورگن سٹینلے کے تجزیہ کاروں کے مطابق 2027 تک انڈیا جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا میں وزیر اعظم مودی کی پالیسوں کے بعد ایک نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔

انڈیا کی بہت سی کامیابیوں میں سے ایک جی 20 سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنا تھی۔

یہ چاند کے جنوبی قطب پر اترنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے اور گذشتہ ایک دہائی میں انڈیا میں درجنوں ایسی کمپنیاں ابھر کر سامنے آئیں جو ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اثاثوں کی مالک ہیں۔

انڈیا میں ہر چڑھتے سورج کے ساتھ ملک کی سٹاک مارکیٹ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے، انڈیا کے متوسط طبقے نے بھی مُلک کی مستحکم معشیت سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔

انڈیا میں زمینی حقائق کی بات کی جائے تو ’مودینامکس‘ یعنی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا معاشی نقطہ نظر کام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

تاہم جب آپ گہرائی میں جا کر اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو ایک دلچسپ تصویر سامنے آتی ہے۔

1.4 ارب کی آبادی والے اس بڑے ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنھیں اب بھی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے سخت محنت کرنے پڑتی ہے۔ ایسے طبقے کے لیے انڈیا کی مستحکم اور مضبوط معیشت ابھی کچھ خاص نہیں کر پائی ان کے لیے ترقی کا سنہری دور ابھی آنا باقی ہے۔

تو مودی کی اقتصادی پالیسی سے کس کو فائدہ ہوا ہے اور کسے نقصان؟

انڈیا
BBC

ڈیجیٹل انقلاب

ڈیجیٹل گورننس پر نریندر مودی کی جانب سے دی جانے والی توجہ سے انڈیا کے غریب لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔

آج انڈیا کے دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی اپنی روزمرہ ضروریات کی اشیا بغیر نقدی کے حاصل کر سکتے ہیں۔

آج ملک میں بہت سے لوگ روٹی یا بسکٹ کا پیکٹ خریدنے کے لیے کیو آر کوڈ سکین کر کے 10 یا 20 روپے جیسی معمولی رقم ادا کر سکتے ہیں۔

تین سطحوں پر قائم اس ڈیجیٹل نظام کے تحت اس مُلک کے ہر شہری کے لیے شناختی کارڈ، ڈیجیٹل ادائیگی اور ڈیٹا کا ایک کالم ہوتا ہے، جو لوگوں کو ایک لمحے میں ٹیکس ریٹرن جیسی اہم ذاتی معلومات فراہم کرتا ہے۔

کروڑوں لوگوں کے بینک کھاتوں کو اس ’ڈیجیٹل سسٹم‘ سے جوڑنے سے بدعنوانی میں نمایاں کمی آئی ہے۔

اندازوں کے مطابق ڈیجیٹل گورننس کے اس نظام کی وجہ سےمارچ 2021 تک انڈیا کی جی ڈی پی کے 1.1 فیصد کے مساوی رقم کی بچت ہوئی۔

اس کے ذریعے حکومت کئی طرح کی سماجی سبسڈیز اور مالی امداد کو براہ راست ان کے کھاتوں میں ڈالنے کے قابل ہوتی ہے، اس کے علاوہ حکومت کو بھاری مالی نقصان اٹھائے بغیر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ملک میں تعمیراتی کام میں مصروف کرینیں ہر جانب نظر آتی ہیں

آپ انڈیا میں جہاں کہیں بھی جائیں گے، آپ کو ہر جگہ کرین اور جے سی بی مشینیں چلتی نظر آئیں گی۔

یہ سب مل کر انڈیا کے انتہائی خراب بنیادی ڈھانچے کی ایک نئی اور روشن تصویر بنانے میں مصروف ہیں۔

مثال کے طور پر آپ کولکتہ میں بنائی جانے والی انڈیا کی پہلی زیرِ آب میٹرو لائن دیکھ سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی صورتحال اب تیزی سے بدل رہی ہے۔

نئی سڑکوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور میٹرو لائنوں کی تعمیر نریندر مودی کی اقتصادی پالیسی کا محور رہی ہے۔ پچھلے تین سالوں سے ان کی حکومت بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر ہر سال 100 بلین ڈالر خرچ کر رہی ہے۔

2014 اور 2024 کے درمیان انڈیا میں تقریبا 54،000 کلومیٹر (33،553 میل) قومی شاہراہیں تعمیر کی گئیں جو پچھلے دس سالوں کے مقابلے میں دوگنی ہیں۔

مودی حکومت نے بیوروکریسی کا رویہ بھی بدل دیا ہے۔ اس سے قبل دہائیوں تک بیوروکریسی کو انڈیا کی معیشت کا سب سے خوفناک پہلو کہا جاتا تھا۔

تاہم مودی سبھی کی توقعات پر پورا نہیں اترنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

وبائی مرض کے دوران سخت اور تکلیف دہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ 2016 میں کرنسی نوٹ کی بندش کا اثر اب بھی انڈیا کی معیشت پر دیکھائی دیتا ہے۔

طویل عرصے سے زیرِ التوا بالواسطہ ٹیکس (ان ڈائریکٹ ٹیکس) کے نظام کی اصلاحات یعنی گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کو نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے نفاذ میں بہت سی خامیاں تھیں۔ اس سب کا انڈیا کے معاشی ڈھانچے پر دور رس نتائج سامنے آئے۔

انڈیا کا سب سے غیر منظّم چھوٹا تاجر طبقہ جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اب بھی ان فیصلوں کے اثرات سے اپنے آپ کو باہر نکانے میں کمیاب نہیں ہو پایا ہے۔

اب ایسی ہی صورتحال میں مُلک کا نجی شعبہ بڑی سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔

جی ڈی پی کے تناسب کےلحاظ سے نجی سرمایہ کاری 2020-21 میں صرف 19.6 فیصد رہی جبکہ 2007-08 میں یہ جی ڈی پی کا 27.5 فیصد تھی۔

انڈیا
BBC

روزگار کا مسئلہ

اس سال جنوری میں ہزاروں نوجوان اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں بھرتی مراکز پر جمع ہوئے۔ وہ سبھی اسرائیل کی تعمیراتی صنعت میں ملازمت کا خواب لیے یہاں پہنچے تھے۔ بی بی سی کی ارچنا شکلا نے وہاں کے بہت سے لوگوں سے بات کی۔

ان مزدوروں کی مایوسی ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا میں روزگار کا بحران واقعی کتنا سنگین ہے۔ یہ بحران ملک کے ہر کونے میں امید کا گلا گھونٹ رہا ہے۔

23 سالہ روکیا بیپاری کہتی ہیں کہ ’میں اپنی فیملی کی پہلی رکن ہوں جس کے پاس پوسٹ گریجویشن کی ڈگری ہے۔ لیکن جہاں میں رہتی ہوں وہاں کوئی ملازمت نہیں، اس لیے اب میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں۔ اس کام میں پیسے تو ملتے ہیں مگر نہ ہونے کے برابر۔

پچھلے دو سالوں سے، روکیا اور ان کے بھائی کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں ہے۔ وہ انڈیا میں اس صورتحال کا سامنا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال 2000 میں جہاں ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد 54.2 فیصد تھی وہیں 2022 میں یہ بڑھ کر 65.7 فیصد ہو گئی ہے۔

معروف ماہر اقتصادیات جین دریز کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2014 کے بعد سے انڈیا میں اجرت یا تنخواہ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔

روزگار یا ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا انڈیا کے لیے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے جسے نریندر مودی حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انڈیا
BBC

کیا انڈیا دنیا میں ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیا ہے؟

2014 میں انتخابات میں اپنی کامیابی کے فوراً بعد وزیر اعظم مودی نے ’میک ان انڈیا‘ کے نام سے ایک پرجوش مہم کا آغاز کیا تھا۔

اس مہم کا مقصد انڈیا کو دنیا کے لیے ایک بڑی صنعت میں تبدیل کرنا تھا۔

2020 میں ان کی حکومت نے ملک کی مینوفیکچرنگ یعنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سیمی کنڈکٹر سے لے کر موبائل الیکٹرانکس مینوفیکچررز تک کی کمپنیوں کو 25 ارب ڈالر کی مدد فراہم کی۔

اس کے باوجود کامیابی ہاتھ نہ آئی۔

جی ہاں، ایپل کے لیے آئی فون بنانے والی فاکس کون جیسی کچھ کمپنیاں اپنی عالمی پالیسی ’چائنا پلان ون‘ کے تحت تنوع پیدا کرنے کے لیے انڈیا آ رہی ہیں۔

مائیکرون اور سام سنگ جیسی دیگر بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بھی انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے پرجوش ہیں، لیکن یہ اعداد و شمار ابھی اتنے بڑے نہیں ہیں۔

ان تمام کوششوں کے باوجود جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔

انڈیا
BBC

برآمدات میں اضافہ

موجودہ وزیر اعظم مودی سے قبل اُن کے پیشروؤں کے دور میں برآمدات کی نمو بھی بہتر تھی۔

گریٹ لیکس انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کی پروفیسر ودیا مہامبرے کہتی ہیں کہ ’اگر انڈیا کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کی ترقی کی شرح 2050تک 8فیصد سالانہ ہے اور چین 2022 کی سطح پر پھنسا رہتا ہے، تب بھی 2050 میں انڈیا کا پیداواری سیکٹر چین کے 2022 کی سطح سے مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

بڑے پیمانے پر صنعتوں کی کمی کی وجہ سے انڈیا کی آدھی آبادی اب بھی اپنے ذریعہ معاش کے لیے زراعت پر انحصار کرتی ہے جو دن بہ دن فائدہ سے نقصان کا موجب بنتا جا رہا ہے۔

اس سب کا براہ راست نتیجہ کیا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ انڈیا میں عام آدمی کے گھر کا بجٹ سکڑ رہا ہے اور اُن کی پریشانیوں اور تکالیف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اس سب صورتحال کے بعد انڈیا میں عام لوگوں پر قرضوں کا بوجھ اپنی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے، تاہم دوسری جانب یہ لوگ جو پہلے کُچھ بچت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے اب وہ ایسا نہیں کر پا رہے۔

بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ وبائی امراض کے بعد انڈیا کی معاشی ترقی ناہموار رہی ہے۔ جس میں امیر لوگ دن بدن امیر ہوتے جا رہے ہیں جب کے اس کے برعکس غریب لوگ دن بدن مُشکالات میں گھرتے چلے جا رہے ہیں۔

اگرچہ انڈیا جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے، لیکن فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈیا اب بھی 140ویں نمبر پر ہے۔

غیر مساوی حالات

’ورلڈ ان ایکویلٹی ڈیٹا بیس‘ عالمی عدم مساوات کے اعداد و شمار کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق انڈیا میں عدم مساوات اپنی 100 سالہ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ حالیہ دنوں میں انتخابی مہم کی بحث دولت کی تقسیم اور وراثت کے ٹیکس کے گرد گھوم رہی ہے۔

حال ہی میں انڈیا کی ارب پتی کاروباری شخصیت مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی سے قبل تین روزہ تقریبات کے دوران انڈیا کے اس ’سنہری دور‘ کی جھلک دیکھنے کو ملی۔

تقریب میں مارک زکربرگ، بل گیٹس اور ایوانکا ٹرمپ جیسے بڑے ناموں نے شرکت کی۔

ریحانہ بالی ووڈ کے بڑے ستاروں کے ساتھ رقص کرتی دکھائی دیں۔

گولڈ مین ساکس میں انڈیا کے کنزیومر برانڈز پر تحقیق کرنے والے ارنب مترا کا کہنا ہے کہ انڈیامیں لگژری برانڈ کی گاڑیاں، گھڑیاں اور مہنگی شراب بنانے والی کمپنیوں کا کاروبار انڈیا کے عام لوگوں کی ضرورت کا سامان بنانے والی کمپنیوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

سٹرن میں نیو یارک یونیورسٹی کے پروفیسر ویرل آچاریہ کا کہنا ہے کہ مٹھی بھر بڑے کاروباری گھرانے ’ہزاروں چھوٹی کمپنیوں کی آمدن پر‘ ترقی کر رہے ہیں۔

ویرل آچاریہ کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں بھاری کٹوتی اور ’نیشنل چیمپیئن‘ بنانے کی سوچی سمجھی پالیسی سے فائدہ ہوا ہے۔ اس پالیسی کے تحت قیمتی سرکاری اثاثے جیسے بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو تعمیر کرنے یا ان کا نظام چلانے کے لئے چند منتخب کمپنیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

الیکٹورل بانڈ کے اعداد و شمار کے منظر عام پر آنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ ان میں سے کئی کمپنیاں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو چندہ دینے میں سب سے آگے رہی ہیں۔

انڈیا
BBC

کیا یہ واقعی انڈیا کا دور ہے؟

مجموعی طور پر یہ تمام چیزیں انڈیا کی معیشت کی ایک متضاد تصویر پیش کرتی ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے بہت سے مسائل کے باوجود انڈیا آج ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔

مورگن سٹینلے کے تجزیہ کاروں نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ انڈیا کی اگلی دہائی 2007 سے 2012 کے چین (تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک) کی طرح ہوسکتی ہے۔

ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کو کئی معاملات میں برتری حاصل ہے۔ انڈیا میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زور دینا ایک اور پہلو ہے جس کے دور رس نتائج ہوتے ہیں۔ کرسل میں انڈین اقتصادی ماہر ڈی کے جوشی کہتے ہیں کہ ’بندرگاہوں میں سڑکوں، بجلی کی فراہمی اور جہازوں کی لوڈنگ کے وقت کو بہتر بنا کر، انڈیا آخر کار ’ایک ایسا ماحولپیدا کر رہا ہے جہاں مینوفیکچرنگ سیکٹر پھل پھول سکتا ہے۔‘

حالانکہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن کہتے ہیں کہ ’فیزیکل کیپٹل‘ پر زور دینے کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کو ’ہیومن کیپٹل‘ کی تعمیر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (یعنی تعمیر سے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔)

آج انڈیا میں بچے کے لیے تعلیمی معیار اور سہولیات ویسی نہیں کہ جیسی انھیں ایک مصنوعی ذہانت کی دنیا کا سامنا کرنے کے لیے ضرورت ہے۔

پرتھم فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 14 سے 18 سال کی عمر کے ایک چوتھائی بچے درست انداز میں ایک سادہ تحریری جملے بھی نہیں پڑھ سکتے۔

کووڈ کی وجہ سے طلبا کی پڑھائی کو بڑا دھچکا لگا تھا، کیونکہ وہ تقریبا دو سال تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں جا سکے تھے۔ لیکن حکومت نے اس صورتحال کے باوجود تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کیا۔

ایسا لگتا ہے کہ مودی کی پہلی دہائی میں معاشی پالیسی صرف چند منتخب افراد کے لیے کارگر ثابت ہوئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ملک کی زیادہ تر آبادی کے لیے ایسا لگتا ہے کہ خواب ابھی تک ادھورہ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.