ڈیٹنگ ایپ سے قطری جیل تک: جب ’جیو‘ کی تلاش میں ایک شخص پولیس کے چُنگل میں پھنس گیا

مینویل کے خاندان کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھیں ایچ آئی وی کی بیماری ہے اور ان کی دوائیاں بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔ انھوں نے برطانوی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ مینویل کو قطر سے واپس برطانیہ لائیں۔
ہم جنس پرست، قطر، برطانیہ
BBC
خاندان کا دعویٰ ہے کہ قطری پولیس نے مینویل کو گرفتار کرنے کے لیے ’ہنی ٹریپ‘ کا استعمال کیا

برطانوی میکسیکن شخص مینویل گریرو اوینا قطر میں اپنے گھر میں موجود تھے جب ان سے ’جیو‘ نامی ایک شخص نے ہم جنس پرستوں کے لیے بنائی گئی ڈیٹنگ ایپ ’گرینڈر‘ پر رابطہ کیا اور دونوں نے ملاقات کے لیے وقت طے کر لیا لیکن مینویل کے خاندان کے مطابق جب وہ ’جیو‘ سے ملنے پہنچے تو وہاں قطر کے پولیس اہلکار ان کا انتظار کر رہے تھے۔

مینویل کے بھائی اینریک نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان کے بھائی کو منشیات رکھنے کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا۔ ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ قطری پولیس نے مینویل کو گرفتار کرنے کے لیے ’ہنی ٹریپ‘ کا استعمال کیا۔

مینویل کے خاندان نے برطانوی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ مینویل کو قطر سے واپس برطانیہ لائیں۔

ایمنسیٹی انٹرنیشنل نے حراست میں مینیویل کے ساتھ رواں رکھے گئے سلوک کو ’بد ترین‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف قطر میں جاری عدالتی کارروائی ’خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔‘

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیمیں بھی ایمنیسٹی انٹرنیشل کے تحفظات سے اتفاق کرتی ہیں۔

دوسری جانب قطری حکام کا کہنا ہے کہ مینیویل کے ساتھ ’عزت اور احترام‘ کے ساتھ پیش آیا جا رہا ہے۔

’جیو‘ تھا کون اور اس نے مینیویل کو کیسے پھنسایا؟

گرینڈر پر’جیو‘ کی پروفائل دیکھنے میں بالکل ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے دنیا بھر میں ڈیپٹنگ ایپس پر موجود ہزاروں افراد کی ہوتی ہے۔

بی بی سی نے ’جیو‘ کی گرینڈر پر موجود پروفائل دیکھی اور یہاں ان کی ڈھیر ساری جِم میں لی گئی سیلفیاں موجود ہیں جن میں ان کا نیم برہنہ جسم دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ہی شخص کی پروفائل ایک اور ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر پر بھی مائیک کے نام سے موجود ہے۔

اینریک کہتے ہیں کہ ان کے بھائی مینیویل نے ’جیو‘ سے اپنے رابطہ نمبروں کا بھی تبادلہ کیا اور انھیں دوحا میں واقع اپنے اپارٹمنٹ پر آنے کی دعو ت دی لیکن جب مینویل اپنی بلڈنگ کی لابی میں ’جیو‘ سے ملنے پہنچے تو وہاں قطری پولیس اہلکار موجود تھے۔

انرینک کہتے ہیں کہ پولیس نے ان کے بھائی کو فوراً ہتھکڑیاں لگا دیں اور گرفتار کر لیا۔

قطر میں ہم جنس پرستی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ مینویل ایک ایئرلائن میں کام کرتے ہیں اور ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے سات برس سے ایک ’نارمل زندگی‘ گزار رہے ہیں اور انھیں اس سے قبل حکام نے کبھی کچھ نہیں کہا۔

قطری حکام کا اصرار ہے کہ 44 سالہ مینویل کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ ان کے پاس سے منشیات برآمد ہوئی تھی اور اس کے علاوہ ان کی گرفتاری کے پیچھے کوئی دوسری وجہ نہیں۔

قطری حکام کا دعویٰ ہے کہ مینویل نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس منشیات موجود تھی اور بعد میں ان کا طبی معائنہ بھی کیا گیا جس میں تصدیق ہوئی کہ ملزم منشیات استعمال کر رہا تھا۔

تایم اینریک کا کہنا ہے کہ مینیویل نے منشیات کا استعمال نہیں کیا اور قطری حکام کی جانب سے ’میتھ‘ برآمد کرنے کی بات درست نہیں۔

مینویل کے خاندان نے بی بی سی کے سامنے ایک تفصیلی ’ٹائم لائن‘ رکھی جس میں میڈیا کی رپورٹنگ بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قطر میں دیگر ہم جنس پرستوں کو بھی ایسے ہی برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پولیس سٹیشن میں موجودگی کے دوران مینویل نے مبینہ طور پر دیگر افراد کو ’پُشت پر کوڑے‘ کھاتے ہوئے دیکھا اور انھیں دھمکایا گیا کہ انھیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اگر انھوں نے قانونی دستاویزات پر دستخط نہیں کیے۔

مینیویل نے اپنے خاندان کو بتایا کہ یہ دستاویزات عربی زبان میں تھے اور وہ عربی زبان نہیں سمجھتے۔

اینریک کا کہنا ہے کہ جب ان کے بھائی نے حکام کو ایچ آئی وی کی بیماری کے بارے میں بتایا تو انھوں نے مینویل کوقید تنہائی میں ڈال دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مینویل سے جو تفتیش کی جاتی تھی وہ گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی اور اس دوران انھیں ان کی دوا بھی نہیں جاتی تھی۔

برطانیہ کے نیشنل ایڈز ٹرسٹ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ کسی قیدی سے اس کی دوا چھیننا ’اختلاقی طور پر باقابلِ برداشت‘ ہے۔ ٹرسٹ نے برطانیہ کی حکومت سے گزارش کی ہے کہ وہ مینویل کو واپس لائیں تاکہ ان کا علاج کروایا جا سکے۔

حراست میں مینویل کو بتایا گیا کہ انھیں منشیات استعمال کرنے کے الزام میں چھ ماہ سے تین سال تک کی سزا سُنائی جا سکتی ہے لیکن 42 دن قطری حکام کی حراست میں گزارنے کے بعد انھیں عارضی رہائی مل گئی ہے اور وہ اب اگلی عدالتی کارروائی تک اپنے دوستوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

قطری حکام نے ان کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیا ہے اور وہ قطر چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل سے بطور محقق منسلک دانا احمد کہتی ہیں کہ مینویل کی گرفتاری اور اب تک کی عدالتی کارروائی کو دیکھ کر ’سنگین تشویش لاحق ہو رہی ہے کہ مینویل کو ان کی جنسی پہچان کے سبب گرفتار کیا گیا اور ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دیگر ہم جنس پرستوں کے بارے میں حکام کو معلومات فراہم کریں۔‘

برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے مطابق ’ہم قطر میں ایک برطانوی شخص کی مدد کر رہے ہیں اور ان کے خاندان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘

بی بی سی نے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے لکھے گئے خط کو پڑھا ہے جس میں وہ اراکینِ پارلیمنٹ کے ایک گروپ کو بتاتے ہیں کہ وہ اس ’کیس کی قریب سے نگرانی‘ کر رہے ہیں لیکن برطانیہ کسی دوسرے ملک کے عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

ہم جنس پرستوں کو پھانسنے کے لیے ڈیٹنگ ایپ کا استعمال؟

بی بی سی کو سب سے پہلے مینویل کے کیس کے حوالے سے ’فیئر سکوائر‘ نامی تنظیم نے مطلع کیا تھا۔ اس تنظیم کے ڈائریکٹر جیمز لنچ ایک سابق برطانوی ڈپلومیٹ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مینویل ایک ایل جی بی ٹی (ہم جنس پرست) شخص ہیں اور انھیں ایک ڈیٹنگ ایپ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔‘

مینویل کے خاندان کے دعوؤں کی سچائی کو جانچنے کے لیے بی بی سی نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی دیگر شخصیات سے بھی بات چیت کی۔

ہیومن رائٹس واچ نے 2022 میں ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں چھ افراد کے انٹرویوز کیے تھے اور ان افراد کے مطابق قطری حکام نے ان پر بھی دباؤ ڈالا تھا کہ وہ دیگر ہم جنس پرستوں کے بارے میں معلومات مہیا کریں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ڈپٹی ڈائریکٹر راشا یونس کا کہنا ہے کہ قطری سکیورٹی اہلکار ہم جنس پرست افراد کو صرف ان کی شناخت کی وجہ سے گرفتار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

خیال رہے 2022 میں فُٹبال ورلڈ کپ کے دوران بھی قطر کا ہم جنس پرستوں کے خلاف رویہ خبروں میں رہا تھا۔

ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر ناس محمد کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے دوران قطری حکام نے کہا تھا کہ ’ہم ہر شخص کو خوش آمدید کہتے ہیں‘ لیکن اس موقع پر بھی ہم جنس پرستوں کے خلاف کارروائیوں کی اطلاعات میڈیا میں گردش کر رہی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کے مینویل نے منشیات کا استعمال کیا یا نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے ہم جنس پرست ہونے پر سوال کیے جا رہے ہیں اور انھیں گرینڈر پر پھنسایا گیا تھا۔‘

مینویل کے کیس کے منظرِعام پر آنے کے بعد گرینڈر ایپ قطر میں موجود اپنے صارفین کو خبردار کر رہی ہے کہ ’پولیس اس ایپ پر موجود ہے اور گرفتاریاں کر رہی ہے۔‘

قطر میں اپنے بھائی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اینریک کہتے ہیں کہ ’جب میں جیل میں اپنے بھائی سے ملا اور سُنا کہ اسے وہاں کیا کیا سہنا پڑا، تو مجھے لگا جیسے کہ میں کسی بیتی ہوئی صدی کے مقدمے کے بارے میں سُن رہا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کا بھائی برطانیہ میں اپنے گھر واپس آنا چاہتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.