چاند بی بی: بیجاپور کی ملکہ جن کی بہادری اور ہمت پر مغلوں نے انھیں ’چاند سلطان‘ کا لقب دیا

اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبار مدراس کوریئر نے لکھا ہے کہ ’عوام ان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ مغربی پہاڑیوں کے کسان یہ تسلیم کرنے ہی کو تیار نہیں تھے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘

سنہ 1580 میں علی عادل شاہ کا قتل ہوا تو چاند بی بی نے ثابت کیا کہ وہ صرف ان کی بیوہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہیں۔

جنوبی ہندوستانی علاقے دکن میں، سنہ 1347 میں قائم ہونے والی بہمنی سلطنت 180 سال بعد ٹوٹی تھی اور اس سے جن پانچ چھوٹی سلطنتوں نے جنم لیا تھا ان میں سے ایک بیجا پور کے پانچویں حکمران علی عادل شاہی تھے اور چاند بی بی نظام شاہی احمد نگر کے تیسرے سلطان، حسین نظام شاہ کی بیٹی تھیں۔

حسین کی زندگی میں ان کی اہلیہ خونزہ ہمایوں حکومتی امور میں شریک رہی تھیں اور اپنے شوہر کی وفات پر بھی اپنے بیٹے مرتضیٰ کی کم سِنی میں ایک عرصے تک قائم مقام حکمران رہیں۔

تاریخ دان مَنوُ ایس پِلے نے آذربائیجان کے ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی خونزہ کو اپنے زمانے سے آگے کی خاتون کہا ہے۔

رفیع الدین شیرازی اور محمد قاسم فِرشتہ کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خونزہ ’بڑی مدبر،عالی دماغ اور حوصلہ مند خاتون تھیں اور انھیں امور سلطنت اور اصولِ حکمرانی میں خاص کمال حاصل تھا۔‘

سید احمد اللہ قادری لکھتے ہیں کہ کئی معرکوں میں وہ خود شریک ہوئیں۔ یہی خونزہ ہمایوں چاند بی بی کی والدہ تھیں۔

وزیر حسن نے اپنی کتاب ’چاند بی بی سلطان: ایک بیٹی‘ میں لکھا ہے کہ ’چاند بی بی ہو بہو اپنی ماں جیسی تھیں۔ وہی ترکمانی آن بان، وہی شہابی رنگ۔‘

چاند بی بی ’تیر اندازی میں ماہر، گھڑ سواری میں مشاق اور تیغ زنی میں طاق تھیں۔ وہ عربی، فارسی، ترکی، مراٹھی اور کَنَڑا سمیت کئی زبانیں جانتی تھیں۔ سِتار بجاتی تھیں اور مصوری میں خاص طور پر پھول پینٹ کرنا ان کا شوق تھا۔‘

شوہر پر حملہ ناکام بنایا

چاند بی بی
Getty Images

چاند بی بی کی شادی علی عادل شاہ سے اور چاند بی بی کے بھائی مرتضیٰ کی، علی عادل شاہ کی بہن ہدیہ سلطان سے ہوئی۔

علی احمد کے مطابق ان شادیوں سے احمد نگر اور بیجا پور میں پرانی دشمنی ختم ہوئی۔ چاند بی بی، علی عادل شاہ کی کئی مہموں میں ان کے ساتھ رہیں۔ وہ میدانِ جنگ کی سختیاں جھیلتیں، ان کے ساتھ شکار کھیلتیں اور ضرورت پڑنے پر انھیں مشورے دیتی اور ان کی ہمت بندھاتیں۔

ان ہی کے مشوروں اور کوششوں سے بیجا پور کے احمد نگر سے تعلقات اچھے رہے، سلطنت مضبوط ہوئی اور بغاوتیں ختم ہوئیں۔

ایک مرتبہ علی عادل شاہ کو اپنے قتل کی سازش کی خبر ملی۔ چاند بی بی نے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ وہ رات کو ان کی حفاظت کریں گی۔ ایک رات اچانک بالا خانے پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ چاند بی بی خود تلوار سونت کر تن تنہا بالا خانے پر چڑھ گئیں۔

تلواریں لیے دونقاب پوش ان پر جھپٹے۔ پھرتی سے پیچھے ہٹ کر چاند بی بی نے تلوار کا ایسا بھر پور وار کیا کہ ایک وہیں ڈھیر ہوگیا۔ دوسرا آگے بڑھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔

شور سن کرعلی عادل شاہ جاگ اٹھےاور بھاگتے ہوئے اوپر آئے۔ انھوںنے یہ منظر دیکھا تو اپنی بہادر ملکہ کی تلوار چوم لی اور بولے ’چاند بیگم اگر تمام دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں۔‘

جب علی عادل شاہ نے وفات پائی تو چاند بی بی کی عمر 28 سال تھی مگرمورخین کہتے ہیں کہ وہ رزم و بزم کے تمام قواعد و فنون سے واقف تھیں۔

اولاد نہ ہونے کے باعث، علی عادل شاہ کے قتل پرحکومت ان کے بھتیجے ابراہیم کو منتقل ہوئی جو تاریخ میں ابراہیم عادل شاہ ثانی کے لقب سے جانے گئے۔

احمد نگر میں حکومت

تخت سنبھالنے کے وقت ابراہیم کی عمر نوسال تھی۔ اس لیے اقتدار پر قبضہ کرنے والے امیر کمال خان سے چھٹکارا پاتے ہوئے، ابراہیم کی تعلیم وتربیت اور امورِ سلطنت کا ذمہ خود چاند بی بی کو لینا پڑا۔

ایک بار بہمنی سلطنت سے نکلی باقی تین سلطنتوں، برار، بیدر اور گول کنڈے کی فوجوں نے اکٹھے حملہ کر دیا۔ جتنے دن محاصرہ رہا چاند بی بی برابر ایک مورچے سے دوسرے مورچے پر جاتی رہیں۔ ایک موقع پر جب شدید بارش تھی اورایک جگہ شگاف بھی پڑ گیا تھا، وہ حفاظت کے لیے بذاتِ خود کھڑی رہیں اور اپنی نگرانی میں شگاف بند کروایا۔ محاصرہ پورا ایک سال رہا اور پھر دشمن کو پسپا ہونا پڑا۔

بیجا پور ہی میں اقتدار بھی دیکھا اور قید بھی۔ محمد قاسم فِرشتہ کے مطابق قلعہ ستارہ میں یہ قید جنگی ہاتھیوں کی ملکیت پران کے خلافہوئی ایک سازشکا نتیجہ تھا۔

1584 میں ابراہیم کی بہن کی شادی چاند بی بیکے بھتیجے اور مرتضیٰ کے بیٹے سے ہوئی تو چاند بی بیبیجا پور کو چھوڑ کر احمد نگر اپنے بھائی کے پاس چلی گئیں۔ مرتضیٰ کو دماغی عارضہ لاحق ہو چکا تھا۔ پہلے انھوں نے اپنے بیٹے کی جان لینے کی کوشش کی جس میں بچ نکلنے پر ان کے بیٹے نے انھیں قتل کردیا۔

برطانوی مورخ ارنسٹ بنفیلڈ ہیول لکھتے ہیں کہ جب چاند بی بی کو احمد نگر کی نیابت کی پیش کش کی گئی توان کے بھتیجے کے بیٹے سمیت حکومت کے تین دعوے دار تھے۔

’ان مخالف جماعتوں میں سے ایک کے رہنما نے اکبر کے بیٹے اور تب گجرات میں مغل فوج کے سالار شہزادہ مراد سے مدد مانگی۔ مراد کو یہ موقع اچھا لگا اور خانِ خاناں، جنھیں اکبر نے ان کی مدد کو بھیجا تھا، کے ساتھ احمد نگر کی جانب پیش قدمی کی۔لیکن جب مغل فوجیں قلعے کے باہر پہنچیں توانھیں پتا چلا کہ ان کی آمد کا سن کر شہرمیں ان کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے مخالف کئی دھڑے چاند بی بی کی قیادت میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔

’محافظوں کی حوصلہ افزائی کے لیے، ہاتھ میں تلوار لیے، دشمن کی بھاری گولا باری کے باوجود، مغلوں کی بارودی سرنگوں سے ٹوٹنے والی دیوارکی مرمت کروائی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے بیجاپور اور دیگر ریاستوں سے مدد کے لیے قاصد بھیجے جن کی آزادی کو مغل فوج کی احمد نگر میں کامیابی کی صورت میں خطرہ ہونا تھا۔‘

ہیول نے لکھا ہے کہ اکبر کے بیٹے شہزادہ مراد، اگرچہ ہمت میں کم نہیں تھے، لیکن شراب زیادہ پینے اور اپنےگرم مزاجکے زیر اثر، خانِ خانان جیسے قابل اور تجربہ کار جنرل سے الجھتے رہتے جنھیں اکبر نے ان کا مشیر بنا کر بھیجا تھا۔

’تقریباً چار مہینوں کے محاصرے کے بعد بہت کم پیش رفت ہوئی تھی۔ اس لیے شہزادہ مراد نے احمد نگر کی آزادی برقرار رکھتے ہوئے پیچھے ہٹنے کے لیے برار کی حاکمیت پر چاند بی بی کا اپنا دعویٰ چھوڑنے کی پیش کش قبول کرلی۔ یہیں مغلوں نے انھیں چاند سلطانکے لقب سے مخاطب کیا تھا۔

تاہم چاند بی بی کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔

ہیول کے مطابق اس کے فوراً بعد ان کے وزیراعظم کی بے وفائی اور برار کی سرحدوں کے تنازع نے انھیں پھر مغلوں کے سامنے لا کھڑاکیا۔

'اس بار مغل دکن کی متحدہ افواج کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچے۔ خان خاناں اور شہزادہ مراد کے درمیان تنازعکی وجہ سے اکبر نے 1598 کے شروع میں خانِ خاناں کو واپس بلا لیا اورابوالفضل کو دکن جانےاور شہزادہ مراد کو دربار واپسی کا حکم دیا۔ لیکن مراد ابوالفضل کی آمد کے دن ہی دم گھٹنے سے مر گئے۔‘

احمد نگر
Getty Images

چاند بی بی کا قتل

’خود کو سازشیوں کے چُنگل میں پاتے ہوئے، چاند بی بی نے بہترین ممکن شرائط پر ابوالفضل کے ساتھ بات چیت کی۔ ایک معاہدے پر دستخط ہوئے؛ لیکن دلیراور بے خوف چاند بی بی کو ان کے محل میں سپاہیوں کے ایک ہجوم نے اس افواہ پر قتل کر دیا کہ وہ ان کے ساتھ غداری کر رہی ہیں۔

آئرش مورخ ونسینٹ آرتھر سمتھ نے لکھا ہے کہ چاند بی بی نے خود زہر پی لیا تھا۔

ابراہیم ثانی نے اپنی چچی کے لیے لکھا ’جنگوں کے ہولناک ہنگاموں میں انھوں نے کبھی حوصلہ نہ ہارا

امن کے فن میں وہسمجھ دار اور مدبر تھیں، کمزور کے لیے نرم خُو، ضرورت مند کے لیے ہمیشہ سخی

یہ تھیں چاند سلطان، بیجا پور کی محبوب ملکہ۔‘

تاریخ دان مَنُو ایس پِلےاپنی کتاب ’دی ریبل سلطانز‘(باغی سلاطین)میں لکھتے ہیں یہ قتل بے وجہ تھا۔ احمد نگر ایک قابل حکمران سے محروم ہو گیا۔ قلعے کو فتح ہونا تھا سو ہوا۔

تقریباً چھ ماہ کے ایک اور محاصرے کے بعد احمد نگر 1601 میں اکبر کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ دانیال کی کمان میں شاہی فوج کے حملے کی زد میں آ گیا۔ قتلِ عام ہوا، خزانہ لوٹ لیا گیا۔ حکمران بہادر نظام شاہ کو گوالیار کے قلعے میں قید کر دیا گیا۔

مغلوں نے چاند بی بی کے قاتلوں کو بھی مار دیا۔ اُدھر ابوالفضل کے مشورے پر اکبر لاہور سے خاندیش کے فاروقی خاندان کے آخری حکمرانبہادر خان کے علاقوں سے ہوتے ہوئے دکن میں داخل ہوئے۔

بہادر اپنے پیشرو کی 30 سالہ قید کے بعد حال ہی میں تخت پر بیٹھے تھے۔ بہادر نے اسیر گڑھکے قلعے کے گیارہ مہینوں کے محاصرے کے بعد ایک وبا کی وجہ سے اکبر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

انھیں بھی گوالیار میں قید کرتے ہوئے خاندیش کو مغل سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔

مغل کامیابی پر بیجاپور اور گولکنڈا کے سلطانوں کو اکبر کے ساتھ سمجھوتے کی سوجھی۔ شہزادہ دانیال اور ابراہیم عادل شاہ کی بیٹی کے درمیان شادی طے پائی۔ 1602 میں اکبر فتح مند آگرہ واپس آئے اور ابوالفضل کے ہاتھ انتظام دیتے ہوئے، خود دکن کے شہنشاہ کا خطاب بھی اپنا لیا۔

خواتین کی خود مختاری کی علامت

محقق سارہ وحید نے لکھا ہے کہچاند بی بی بیک وقت اسلامی، ہندی، فارسی اور دکنی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ اثرات چاند بی بی کے بصری تخیل میں عیاں ہیں۔

’زیادہ تر پینٹنگز میں ملکہ کو باز سے شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ عام طور پرایکمردانہ تفریح تھی،لیکن یہاں باز چاند بی بی کے لیے خواتین کی خودمختاری کی علامت ہے۔‘

عبدالقادرکی کتاب ’تاریخ احمد نگر‘ کے مطابق چاند بی بی کے دربار میں نجومی، محدث، فقہا، حافظِ قرآن، کاتب، مجسمہ ساز اور مصور، طبیب اور فلسفی، نقال اور اداکار، درزی اور خیاط، سنار، آہن گر، قصہ گو، راگ گو (گلوکار)، رقاص، چاشنی گیر (کھانا چکھنے والے)، متصدّی (اکاؤنٹنٹ اور کلریکل افسر)، وزیر، بخشی (فوجی تنخواہ کے منتظم)، عرض بیگی (سرکاری دستاویزات اور درخواست پڑھنے والے) شامل تھے۔

سواری میں چاند بی بی کے ساتھ سات سوعورتیں چلتی تھیں۔

’ان میں فیل بان (ہاتھی چلانے والی اور مہاوت)، شتربان (اونٹ چلانے والی)، کارواں چلانے والی، دربان، چوب دار، خدمت گار، جلیب دار، عہدے دار، نیزہ بردار، آب دار، جمع دار، ایک سو بکتر بند اور ایک سو تیرانداز سپاہی تھیں۔ تقریباً چارسوعورتیں زریں پہنے اور مردوں کے لباس میں موجود ہوتیں۔‘

سارہ کہتی ہیں کہ ’میں نے جنوبی ہند میں چاند بی بی کی تلاش میں ان مقامات کا دورہ کیا جہاں کبھی چاند بی بی کی حکمرانی تھی۔ میں اس نیتجے پر پہنچی کہ چاند بی بی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔‘

اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبار مدراس کوریئر نے لکھا ہے کہ ’عوام ان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ مغربی پہاڑیوں کے کسان یہ تسلیم کرنے ہی کو تیار نہیں تھے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘

’وہ کہتے تھے کہ وہ ایک سرنگ کے ذریعے نکل گئی تھیں اور پہاڑوں کے کسی غار میں چھپی ہوئی ہیں۔ جب وقت آئے گا تو وہ پھر ظاہر ہو جائیں گی اور احمد نگر کا سنہری دور پھر سے واپس آجائے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.