شادی کے وعدے پر فراڈ: جب ایک جعلساز نے خود کو ’خفیہ ایجنٹ‘ بتا کر خاتون کی زندگی بھر کی جمع پونجی چھین لی

یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جنھیں لگتا ہے کہ انھیں اب کبھی اپنے پیسے واپس نہیں مل سکیں گے۔ ایک جعلساز نے ’جاسوس‘ بن کر ان سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا لی تھی۔
جاسوس، جعلسازی، رومانس فراڈ
BBC

یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جنھیں لگتا ہے کہ انھیں اب کبھی اپنے پیسے واپس نہیں مل سکیں گے۔ ایک جعلساز نے ’جاسوس‘ بن کر ان سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا لی تھی۔

مارک ایکلوم نامی شخص نے کیرولن ووڈز سے کہا کہ وہ ایک ’ایم آئی سِکس‘ ایجنٹ اور کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ان کی جمع پونجی لے اڑے۔

کیرولن کہتی ہیں کہ انھوں نے 12 سال قبل اپنے آٹھ لاکھ 50 ہزار پاؤنڈز گنوا دیے تھے۔ عدالت کی جانب سے جعلساز کے خلاف کارروائی میں تاخیر ہوئی اور اب اسے دسمبر 2024 تک موخر کر دیا گیا ہے۔

ایک وہ وقت تھا جب مارک ایکلوم کا نام نیشنل کرائم ایجنسی کے 10 سب سے مطلوب مفرور لوگوں کی فہرست پر تھا۔ انھیں برطانیہ کا ’سب سے بدنام جعلساز‘ بھی کہا گیا۔

2019 کے دوران مارک نے کیرولن کو تین لاکھ پاؤنڈز کے معاملے میں دھوکہ دینے کا اعتراف کیا تھا۔ انھیں سپین سے برطانیہ کے حوالے کیا گیا تھا۔

مارک ایکلوم نے کیرولن ووڈز سے کہا کہ وہ اپنی کچھ پراپرٹیز کی تزئین و آرائش کا کام کروانا چاہتے تھے۔ کیرولن ووڈز انھیں پیسے دینے کے لیے رضامند ہوگئیں جب مارک نے ان سے ایک سال کے رومانوی تعلقات کے بعد شادی کا وعدہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بات قریب 12 سال سے چل رہی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے کوئی پیسے واپس ملیں گے۔‘

کیرولن ووڈز حال ہی میں اپنے ایک پارٹنر سے علیحدہ ہوئی تھیں اور جب وہ مارک ایکلوم سے ملیں تو اس وقت انھوں نے اپنا گھر فروخت کیا تھا۔ وہ 2012 میں مارک سے گلوسٹرشائر کے علاقے ٹیٹبوری کی ایک دکان میں ملی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اس وقت بہت پُرجوش ہوا کرتے تھے۔ پھر مجھے ان کی جعلسازی کا علم ہوا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ مارک نے ان سے جھوٹ بولا کہ وہ ایم آئی سِکس کے ایک خفیہ ایجنٹ ہیں اور اکثر برطانوی سکیورٹی سروسز کے بیرون ملک مشنز میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

ایک بار کیرولن نے انھیں لندن میں ایم آئی سِکس کے ہیڈکوارٹر کے باہر دیکھا جہاں وہ آرام سے مسلح گارڈز کے سامنے سے گزر گئے۔

کیرولن کو لگتا ہے کہ یہ گارڈز اداکار تھے اور پورا واقعہ ایک ڈرامہ تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پیچھے مُڑ کر، خاص کر پیسوں کے معاملے کو دیکھ کر، مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ میں ایک سمجھ دار انسان ہوں۔‘

’لیکن مارک ایکلوم نے مجھے کہا کہ لوگوں کو چند منٹوں میں کتاب کی طرح پڑھ سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس قدر جانتے ہیں جتنا وہ خود اپنے آپ کو نہیں جانتے۔‘

’انھیں معلوم ہے کہ کون سے بٹن دبانے ہیں۔‘

کیرولن ووڈز نے کہا کہ مارک ایکلوم نے انھیں ایک لگژری فلیٹ میں ٹھہرایا اور ان سے شادی کا وعدہ کیا۔ پھر انھیں لاکھوں پاؤنڈز دینے پر راضی کر لیا۔

درحقیقت وہ قریب ہی اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے اور کیرولن کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے جب وہ انھیں وقت نہیں دے پا رہے تھے۔

جو پیسے کیرولن نے دیے انھیں مارک نے لگژری فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے کے لیے استعمال کیا۔

اسی دوران مارک ایکلوم نے دیگر علاقوں میں بھی کئی کاروباری افراد کے ساتھ فراڈ کیے تھے اور ان سے ہزاروں پاؤنڈز بٹورے تھے۔

جب اس بارے میں لوگوں کو پتا چلا تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے دماغ سے ٹیومر نکلوانا چاہتے ہیں۔ وہ اکثر سپین جاتے رہتے تھے اور باآسانی ہسپانوی زبان میں بات کر سکتے تھے۔

’کوشش کرتی ہوں کہ امید باقی رہے‘

کیرولن کا کہنا ہے کہ وہ اس دھوکے کے صدمے سے کبھی باہر نہیں آ سکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ ٹریک پر لانا چاہتی ہیں۔

مارک ایکلوم کو 2023 کے دوران سپین کے ایک قید خانے سے رہا کر دیا گیا تھا۔ انھیں وہاں سے برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔ کیرولن کے ساتھ فراڈ کرنے کے الزام میں انھیں برطانیہ میں قریب چھ سال قید کی سزا دی گئی۔

انھوں نے 2019 میں فراڈ کا اعتراف کیا۔ برطانوی قانون پروسیڈز آف کرائم ایکٹ کے تحت ان سے رقم واپس لینے کی کوششیں جاری ہیں۔

عدالتی کارروائی کے ذریعے جرائم پیشہ افراد سے جرم کے ذریعے کمائے گئے پیسے واپس لیے جا سکتے ہیں، ورنہ انھیں قید کی اضافی سزا ہوسکتی ہے۔

مارک ایکلوم سے رقم واپس لینے کی آخری سماعت اپریل 2024 کو شیڈول کی گئی تھی تاہم اسے دسمبر تک موخر کر دیا گیا کیونکہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے جج دستیاب نہیں تھے۔

کیرولن کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میں ٹھیک ہوں۔ آپ کو کوشش کرنی پڑتی ہے کہ مثبت انداز میں سوچیں اور اپنی امید بحال رکھیں۔‘

’میں نے سوچا تھا عمر بڑھنے کے ساتھ مختلف چیزیں کروں گی لیکن اب یہ ناممکن ہے کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں آزاد رہوں اور میرے پاس رہنے کے لیے اپنی جگہ ہو۔‘

جاسوس، جعلسازی، رومانس فراڈ
BBC
کلیئر کا خیال ہے کہ رقم واپس نہ کرنے پر مارک کو اضافی قید ہوسکتی ہے

’جیل میں مزید رہنے کا امکان ذہن کو چونکا دیتا ہے‘

فرانزک اکاؤنٹینٹ کلیئر بیرنگٹن جرائم پیشہ افراد سے پیسے واپس لینے کے قریب 70 مختلف کیسز میں ملوث رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان قوانین کے تحت مجرم کو مزید سزا ہوسکتی ہے اگر وہ پیسے واپس نہ کر سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ کیسز میں ابتدائی طور پر کسی جرم کی سزا سے زیادہ سزا دی جاسکتی ہے۔ یہ امکان کہ آپ کو جیل میں مزید وقت گزارنا پڑ سکتا ہے، اس سے آپ کا ذہن چونک جاتا ہے۔‘

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ مارک ایکلوم جیسے جرائم پیشہ افراد اپنے اثاثے چھپانے میں ماہر ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس بات کے امکان کم ہیں کہ انھیں (کیرولن کو) تمام جمع پونجی واپس مل جائے گی۔ وہ (جرائم پیشہ افراد) پیسے آنے کے بعد انھیں خرچ کر دیتے ہیں۔‘

’وہ ان رقوم کو سفر اور روزمرہ کی چیزوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ انھیں اسی لیے لائف سٹائل آفنسز کہا جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پروسیڈز آف کریمنل ایکٹ مجموعی طور پر جرائم پیشہ افراد کے اثاثے واپس لینے کے لیے ایک کامیاب طریقہ ہے۔

کیرولن کو لگتا ہے کہ جعلساز مارک کو معلوم ہو گا کہ حکام سے کیسے پیسے چھپانے ہیں۔ ’انھوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ اپنے نام پر کوئی اثاثہ نہ رکھو کیونکہ کوئی آ کر اسے چُرا سکتا ہے۔ مجھے حیرانی ہوگی اگر ان کے نام پر کوئی اثاثہ ہوگا۔‘

’مجھے نہیں لگتا کہ میرے پیسے واپس آئیں گے۔‘

’تاہم یہ ضرور ہے کہ انھیں قانون کے تحت مجھے پیسے لوٹانے پر مجبور کرنا چاہیے، چاہے مجھے میرے پیسے واپس ملیں یا نہیں۔‘

ایک بیان میں حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اکثر لوگوں کو عدالتوں کے سامنے لایا جا رہا ہے اور ہمارے تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گذشتہ مالی سال کے دوران کراؤن کورٹ نے پچھلے سات برس کے دوران زیادہ دن کام کیا ہے جو مجموعی طور پر ایک لاکھ سات ہزار دن بنتے ہیں۔‘

’ہم نظام میں سرمایہ کاری بڑھا رہے ہیں۔‘

’پیسے واپس کرنے کی اخلاقی ذمہ داری‘

کیرولن نے پارکلیز بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں ان کی رقم لوٹائی جائے۔

مارک ایکلوم نے انھیں رومانوی تعلق سے قبل بارکلیز میں اکاؤنٹ کھلوانے کا کہا تھا اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔

انھوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس اکاؤنٹ میں رکھی اور لاکھوں پاؤنڈز ٹرانسفر کر دیے۔

کیرولن کا خیال ہے کہ بارکلیز میں کسی سہولت کار نے رقم کی منتقلی میں مدد کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے امید تھی کہ وہ اخلاقی ذمہ داری محسوس کریں گے۔ اگر آپ میری بینک سٹیٹمنٹ دیکھیں تو آپ رقم کی منتقلی دیکھ سکتے ہیں۔ ’مجھے معلوم ہے کہ میں نے کچھ رقوم مارک کے مجبور کرنے پر منتقل کی تھیں۔ انھیں بھی میرے پیسوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔‘

بارکلیز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کی گئی ہیں اور ہم نے صارف کے ساتھ رپورٹ شیئر کی۔ ہمیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ پارکلیز کا عملہ فرانڈ میں ملوث تھا۔‘

بی بی سی نے فروری کے دوران کچھ ڈیٹا حاصل کی تھی جس کے مطابق گذشتہ چار برسوں کے دوران رومانس فراڈ میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ اس میں اکثر آن لائن جعلساز شامل ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر جعلسازی کے واقعات کم ہو رہے ہیں۔ اس نے آن لائن فراڈ سے بچنے کے حوالے سے ایک مہم شروع کی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.