سوویت یونین کی بنیاد رکھنے والے لینن دُنیا بھر میں کمیونزم کیوں پھیلانا چاہتے تھے؟

لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں کو چیلنج کیا۔
روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
لینن جس وقت پیدا ہوئے اس وقت روس میں بادشاہت کا نظام نافذ تھا

سولہ اپریل سنہ 1917 کی رات تھی اور پیٹروگراڈ (موجودہ نام سینٹ پیٹرزبرگ) کے فِن لینڈ سٹیشن پر ہزاروں افراد ٹارچیں جلائے ایک شخص کا انتظار کر رہے تھے۔

اسی رات ایک ایسا لمحہ آیا جب ٹرین سے ایک شخص باہر نکلا اور سٹیشن پر موجود لوگوں سے خطاب کرنے لگا: ’لوگوں کو امن چاہیے، لوگوں کو روٹی چاہیے، لوگوں کو زمین چاہیے۔‘

ٹرین سٹیشن پر جمع تمام افراد روسی شہری تھے اور ان سے خطاب کرنے والے شخص کا نام ولادیمیر الیچ الیانوف تھا، جنھیں دُنیا لینن کے نام سے جانتی ہے۔

بیسویں صدی کے یورپ میں وہ طاقت کے ایک اونچےدرجے پر پہنچے لیکن پھر بتدریج اس میں کمی آتی گئی۔

روس کی تاریخ کو تبدیل کرنے آنے والے اس شخص کو بیک وقت لوگ سراہتے بھی تھے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔

لینن جس وقت پیدا ہوئے اس وقت روس میں بادشاہت کا نظام نافذ تھا اور انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک سے باہر گزارا۔

لیکن سنہ 1917 میں ان کی روس واپسی نے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا جو اس وقت انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا۔

لیکن وہ سات برس سے بھی کم عرصے میں روس میں انقلاب لانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ ان کے نظریات دراصل تھے کیا؟ ان سوالات کے جوابات آج بھی ڈھونڈے جا رہے ہیں۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
لینن کے بھائی الیگزینڈر کو سنہ 1887 کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا

ایک جماعتی ریاست؟

لینن سنہ 1870 میں دریائے وولگا کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے قصبے سمبرسک میں پیدا ہوئے تھے۔ بعدازاںلینن کے اعزاز میں اس قصبے کا نام تبدیل کرکے اولیانووسک رکھ دیا گیا تھا۔

ایک امیر خاندان میں پیدا ہونے والے لینن کم عمری سے ہی باغی سوچ کے مالک تھے، لیکن ایک واقعے نے ان کے دماغ میں سامراج مخالف سوچ کو پروان چڑھایا، اور وہ واقعہ تھا ان کے بھائی الیگزینڈر کا قتل۔

ان کے بھائی الیگزینڈر کو سنہ 1887 کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ ان پر روسی سلطنت کے اس وقت کے بادشاہ الیگزینڈر سوئم کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اس وقت کی روسی سلطنت میں شہریوں کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں تھا، خاص طور پر زراعت کے پیشے سے منسلک افراد انتہائی غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

اسی تناظر میں سنہ 1985 میں لینن نے پہلا انقلابی قدم اُٹھایا اور ’سوشل ڈیموکریٹک‘ تحریک کے پرچار اور فروغ دینے کے الزام میں جیل چلے گئے۔ لینن کو ایک برس بعد ہی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا لیکن اپنی رہائی کے بعد بھی انھیں تقریباً تین برس سائبیریا میں جلاوطنی میں گزارنے پڑے۔

پھر وہ سنہ 1900 تک جنیوا پہنچ چکے تھے جہاں انھوں نے دیگر سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ایک نئے منصوبے پر کام شروع کیا۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
لینن سنہ 1870 میں دریائے وولگا کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے قصبے سمبرسک میں پیدا ہوئے تھے

اس منصوبے کا نام ’اسکرا‘ تھا۔ ’اسکرا‘ ایک سیاسی اخبار تھا جو کہ ’رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘ کے نظریات کے پرچار کے لیے نکالا گیا تھا۔

اردو میں لفظ ’اسکرا‘ کے معنی’چنگاری‘ ہیں۔ اس اخبار کا مقصد یہ تھا کہ روس سے باہر بِیٹھ کر بھی ملک میں سوشل ڈیموکریٹک تحریک چلائی جا سکے۔

جلاوطنی کے اس سفر میں لینن کا ساتھ ان کی اہلیہ نادیہ نے بھی دیا جو کہ خود بھی انقلابی نظریات کی حامی تھیں۔ دونوں ہی جرمن فلسفی کارل مارکس کے نظریات کے پیروکار تھے۔

سنہ 1903 میں ایک ایسا وقت آیا جب روس میں لینن کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔ وہ اس وقت عارضی طور پر لندن میں مقیم تھے اور وہاں ’رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘ کی دوسری کانگریس کا انعقاد ہونا تھا۔

اس کانگریس میں لینن کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ روسی عوام کو بادشاہت اور سرمایہ داری کے نظام کے خلاف متحد کیا جائے۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
جلاوطنی کے اس سفر میں لینن کا ساتھ ان کی اہلیہ نادیہ نے بھی دیا جو کہ خود بھی انقلابی نظریات کی حامی تھیں

لیکن اس کانگریس کے نتیجے میں یہ نمایاں ہوگیا کہ ’رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘ دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔

ایک طرف ’مینشیوکس‘ تھے جو کہ زیادہ روشن خیال تھے اور ان کا جھکاؤ یورپی جمہوری پارلیمانی نظام کی طرف تھا۔ دوسری طرف ’بالشویک‘ تھے جن کی قیادت لین کر رہے تھے اور ان کا مقصد اقتدار کا حصول تھا۔

تاریخ کی پروفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’مینشیوکس کے نظریات مغربی یورپی معاشرے کے قریب تھے اور وہ ان سے زیادہ جُڑے ہوئے نظر آتے تھے۔‘

’بالشویک ایک منظم، مضبوط اور روشن خیال سیاسی گروہ تھا جنھیں پارلیمانی نظام کے ذریعے اقتدار میں آنے میں دلچسپی نہیں تھی۔‘

بالآخر ’بالشویک‘ کامیاب ہوئے اور انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جو سنہ 1922 کے بعد سے اب تک روس میں اقتدار میں ہے۔

کمیونسٹ پارٹی ایک جماعتی ریاست کی حامی تھی اور انھوں نے لینن کو اپنا پہلا سربراہ منتخب کیا۔ لیکن ’بالشویک‘ ایک جماعتی ماڈل نافذ کرنے میں کامیاب کیسے ہوئے؟

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
تاریخ کی پروفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’مینشیوکس کے نظریات مغربی یورپی معاشرے کے قریب تھے

تشدد اور جبر

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس زمانے میں واپس جانا پڑے گا جس نے روس کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا اور اس سب کی شروعات 1917 میں ہوئی تھی۔

اس وقت لینن جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور روسی عوام کی حالت بد سے بدتر ہو رہی تھی۔ ملک کے دیہی علاقوں میں قحط پڑا ہوا تھا اور صنعتی کارکنان کو بھی مختلف اشکال میں جبر کا سامنا تھا۔ جنگِ عظیم اول میں روس کی شرکت نے عوام کی زندگیاں اور مشکل کر دی تھیں۔

سنہ 1917 میں بغاوت کے سبب روسی بادشاہ نکولس دوئم انتہائی غیرمقبول ہو چکے تھے اور بالآخر انھیں بادشاہت ختم کرنا پڑی اور اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی حکومت وجود میں آئی اور مینشیوکس بھی اس کا حصہ بنے۔

لیکن جلد ہی اس حکومت کو نام نہاد پیٹروگراڈ سوویت کے ہاتھوں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پروفیسر جولین کیسانوا کے مطابق اس وقت پیٹروگراڈ سوویت بالشویک شخصیات کے زیرِ اثر تھا اور ان کا روس میں بادشاہت کے خاتمے میں کوئی خاص کردار بھی نہیں تھا۔

فروری 1917 میں آنے والے انقلاب کی خبر سُن کر لینن سوئٹزرلینڈ سے ٹرین کے ذریعے جرمنی، سویڈن اور فِن لینڈ کو عبور کرتے ہوئے روس پہنچے۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
سنہ 1917 میں بغاوت کے سبب روسی بادشاہ نکولس دوئم انتہائی غیرمقبول ہو چکے تھے

ان کی روس آمد کا مقصد یہی تھا کہ وہاں بالشویک سوچ پر مبنی انقلاب برپا کیا جا سکے۔ لینن نے روس پہنچ کر اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ’ہمیں سوشلسٹ انقلاب کے لیے آخر تک لڑنا ہوگا جب تک ہمیں مکمل فتح نہیں نصیب ہوجاتی، بین الاقوامی سوشلسٹ انقلاب زندہ باد۔‘

روسی کلینڈر کے مطابق وہاں دوسرا انقلاب اکتوبر کے مہینے میں آیا تھا۔ روس میں اس وقت موجود عارضی حکومت کمزور اور غیرمستحکم تھی اور انقلاب کے نتیجے میں بالشویک حلقوں نے اس حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور اقتدار سنبھال لیا۔

یہ بھی پڑھیے

روس کو پہلی عالمی جنگ سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ لینن نے وہاں امن قائم کرنے کے وعدے کو بھی پورا کیا۔

تین مارچ سنہ 1918 میں روس، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت پہلی عالمی جنگ میں روس کی شرکت اختتام کو پہنچی۔

لیکن یہ امن زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوا اور اکتوبر کے انقلاب کے بعد روس میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہاں بالشویک اقتدار کو ہر کوئی تسلیم نہیں کرتا تھا۔

درحقیقت انقلاب کے بعد روس میں مختلف گروہوں کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی تھی اور یہ تمام گروہ روس کے مستقبل کو اپنے اپنے نظریات کے سائے تلے پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔

اس لڑائی میں ایک طرف لینن کی قیادت میں بالشویک کی ریڈ آرمی تھی جو کہ سوشل ازم کے لیے لڑ رہی تھی، دوسری طرف وہ گروہ تھا جو کہ ان کے مقابلے میں زیادہ روشن خیال تھا۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
روسی کلینڈر کے مطابق وہاں دوسرا انقلاب اکتوبر کے مہینے میں آیا تھا

اس تنازع کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے اور اسی دوران بالشویک گروہ کے حامیوں نے سابق بادشاہ نکولس دوئم اور ان کے اہلخانہ کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

پروفیسر جولین کیسانوا کے مطابق وہ ایک خوفناک تنازع تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بالشویک نظریات کے حامل اور بادشاہت کے حامی فوجیوں کے وہ حلقے جو کہ برداشت دکھانے کے قائل تھے وہ بھی اس خانہ جنگی سے شدید متاثر ہوئے۔ اور یہ برداشت ان لوگوں کے لیے بالکل نہیں تھی جو کہ اختلاف رائے یا مختلف سیاسی نظریات رکھتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لینن نے تشدد اور جبر کو نئی ریاست کو متحد کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔ روسی دانشور اور آرتھوڈیکس چرچ کے اراکین اس مہم میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔‘

بالآخر ریڈ آرمی کی فتح ہوئی اور سنہ 1922 میں لینن کی سربراہی میں سوویت یونین وجود میں آگیا۔ لیکن وہ زیادہ دن اقتدار میں نہیں رہ پائے اور ایک ہی برس میں دل کے دورے کے سبب وفات پا گئے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ لینن کو اپنی زندگی میں اتنا وقت ضرور میسر آیا جس میں انھوں ایک جابر حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد جوزف سٹالن اقتدار میں آئے اور اسی نظام حکومت کو آگے بڑھایا۔

ماسکو کے ریڈ سکوائر میں لینن کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی اور ان کی لاش کو کیمیائی عمل کے ذریعے محفوظ کیا گیا، اور ان کی لاش اب بھی وہیں موجود ہے۔

حالیہ برسوں میں یہ مطالبات سامنے آئے ہیں کہ لینن کے جسم کو دفنایا جائے۔

بین الاقوامی کمیون ازم

لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔

اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھی۔

روس، لینن، کمیونسٹ
Getty Images
سنہ 1922 میں لینن کی سربراہی میں سوویت یونین وجود میں آگیا

اس کے بعد سے اس کے اراکین کمیونسٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن کمیون ازم کو پوری دنیا تک پھیلانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

پروفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’کمیون ازم کی ترویج کا عمل سنہ 1918، 1919 اور 1920 میں جاری رہا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری میں بغاوت ہوئی۔ لیکن بالشویک کہیں اور زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکے۔‘

بلا کون ہنگری کے ایک کمیونسٹ سیاستدان تھے جو 1919 میں کچھ عرصے کے لیے اقتدار میں آئے۔

پروفیسر جولین کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ تمام انقلاب خون خرابے کی نذر ہو گئے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ممالک میں ایسے بہت سارے مسلح گروہ تھے جو کہ لینن کے گروہ اور نظریات کے مخالف تھے۔

ان تمام وجوہات کے سبب لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں کو چیلنج کیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.