عرب ملک اُردن نے اسرائیل پر داغے گئے ڈرون کیوں مار گرائے اور یہ ملک تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟

اسرائیل کو ایران کے حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاں مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ اور فرانس سامنے آئے وہیں ایک عرب مسلم ملک اُردن بھی ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو پسپا کرنے کی خبروں کے باعث پاکستان سمیت دنیا کے متعدد مسلم ممالک میں تنقید کی زد میں ہے۔ اُردن کہاں واقع ہے اور یہ ملک تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟
night
Reuters

مشرقِ وسطیٰ کے باسیوں کے لیے 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب ایک طویل رات ثابت ہوئی جب ایران کے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں سے کیے گئے حملے نے سب کی نظریں عرب دنیا کے آسمان پر ٹکا دیں۔

ایران کی جانب سے یہ حملہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر کیے گئے اُس حملے کے نتیجے میں کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری اسرائیل واضح الفاظ میں قبول تو نہیں کرتا ہے لیکن اس حوالے سے اقوامِ عالم میں عام رائے یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔

گذشتہ چھ ماہ سے عرب خطہ اسرائیل غزہ جنگ کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اس لیے دنیا بھر میں ایران کی جانب سے کیے گئے اس حملے کو بہت غور سے دیکھا جا رہا تھا۔

رات بھر آسمان مختلف مواقعوں پر روشن رہا اور اسرائیل اس حملے کے خلاف اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا۔ اسرائیل کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ کچھ ڈرون اور میزائل اس نے اپنے جدید دفاعی نظام کی بدولت پسپا کیے جبکہ اکثر اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی امریکہ سمیت دیگر اتحادیوں کی مدد سے مار گرائے گئے۔

ان اتحادیوں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اُردن شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس تینوں ہی مغربی ممالک ہیں لیکن مشرقِ وسطیٰ کے ایک مسلم ملک اُردن کی جانب سے ایران ڈرونز اور میزائل فضا میں مار گرانے کے واقعے کے بعد ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے حیرت کا اظہار کیا تو کچھ اُردن پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پاکستان میں ’اُردن‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے سابقہ رکن اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کی جانب سے شاہ اردن عبداللہ دوئم کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے انھیں منفی القابات سے نوازا گیا ہے۔ سینیٹر مشتاق کی اس ٹویٹ پر 26 لاکھ سے زیادہ افراد نے اپنا ردعمل دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔

انھوں نے ’آزاد ڈیجیٹل‘ نامی پلیٹ فارم سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہِ اردن کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل کے میزائلوں، ڈرونز اور جہازوں کو روکے لیکن ایران نے اسرائیل کی طرف جانے والے میزائل اور ڈرونز روکے۔ مجھے یہ بہت بُرا لگا۔‘

پاکستان ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہ اُردن میں بھی اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے جہاں چند ہفتوں پہلے تک امریکی سفارتِ خانے کے باہر اسرائیل مخالف مظاہرے کیے جا رہے تھے۔

خیال رہے کہ اردن میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کے آباؤ اجداد کا تعلق فلسطین سے ہے اور شاہ اردن عبداللہ دوئم کی اہلیہ ملکہ رانیہ بھی فلسطین سے تعلق رکھتی ہیں اور حالیہ عرصے غزہ میں سنگین ہوتے انسانی بحران کے حوالے سے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

اس معاملے پر اُردن اور ایران کا کیا مؤقف ہے؟

مشرقِ وسطیٰ
BBC

عوامی تنقید کے بعد اُردن کی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کی جانب سے یہ اقدام دراصل اُردن کی مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھایا گیا۔

بیان کے مطابق ’کچھ آبجیکٹس (اس معاملے میں میزائل اور ڈرون) ہماری فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے جنھیں ہم نے اس لیے روکا کیونکہ یہ ہمارے لوگوں اور آبادی والے علاقوں کے لیے خطرے تھے۔ ان پسپا کیے گئے ٹارگٹس کا ملبہ اردن میں مختلف جگہوں پر گرا لیکن اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہماری فوج اُردن کے دفاع کے لیے مستقبل میں بھی کسی بھی ملک کی جانب سے کیے گئے حملے کو پسپا کرے گی اور اپنی قوم، اس کے شہریوں، اپنی فضائی حدود اور علاقے کی حفاظت کرے گی۔‘

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ وہ صیہونی ملک (اسرائیل) کے خلاف حملے کے دوران اُردن کی اقدامات کو پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر اردن نے مداخلت جاری رکھی تو وہ اگلا ہدف ہو سکتا ہے۔‘

تاہم ایران کے وزیرِ داخلہ ناصر کنعانی نے پریس بریفنگ کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس حملے کو پسپا کرنے میں اُردن کے کردار پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، یہ ایک فوجی مسئلہ ہے۔۔۔‘

’اُردن کے ساتھ ہمارے روابط دوستانہ ہیں اور گذشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے حکام کے درمیان مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔‘

خیال رہے کہ حال ہی میں ایران کے حمایت یافتہ عراقی ملشیا گروہ المقاموتہ اسلامیہ کی جانب سے اُردن میں موجود ایک امریکی فوجی اڈے ٹاور 22 پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں تین امریکی فوجی ہلاک جبکہ 34 زخمی ہوئے تھے۔

تاریخی طور پر اُردن کو امریکہ کا ایک قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے تاہم اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط میں بہتری 1990 کے عشرے میں آئی جب دونوں ممالک کے درمیان امریکی ثالثی کے باعث معاہدہ طے پایا۔

اردن کہاں واقع اور عرب دنیا میں یہ تاریخی اعتبار سے کہاں کھڑا ہے؟

تصویر
Getty Images
1994: صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں اسرائیل اور اُردن کے حکام امن معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں

جغرافیائی اعتبار سے اُردن مشرقِ وسطیٰ میں ایک اتنہائی حساس مقام پر موجود ہے۔ اُردن کی سرحدیں سعودی عرب، عراق اور شام کے علاوہ اسرائیل اور غربِ اردن کے ساتھ بھی لگتی ہیں۔ اس کی بحیرۂ احمر کے ساحلی پٹی صرف 16 میل پر محیط ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق اُردن کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس میں 90 فیصد سے زیادہ افراد عرب ہیں اور یہاں کی سرکاری زبان بھی عربی ہے۔ اُردن میں فلسطین اور شام سے بڑے پیمانے پر افراد ہجرت کر کے آ چکے ہیں۔

ملک میں بادشاہت کا راج ہے اور اس وقت شاہ اُردن عبداللہ دوئم ہیں۔ یہ ہاشمی گھرانہ (الھاشیمون) ملک کو سنہ 1946 میں برطانیہ سے باقاعدہ آزادی ملنے کے بعد سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہے۔

بادشاہ عبداللہ دوئم کی سرکاری ویب سائٹ میں ہاشمی خاندان کی تاریخ اور اس کا شجرہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق شاہ اردن کا شجرہ پیغمبرِ اسلام اور ان کے پردادہ ہاشم سے جا ملتا ہے۔

20ویں صدی سے پہلے چار سو سال تک اس علاقے پر سلطنتِ عثمانیہ کا راج تھا تاہم پھر پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کا اتحادی ممالک کے مخالف جنگ لڑنے کے فیصلے نے مکہ کے اس وقت کے امیر مکہ شریف حسین بن علی کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا جواز فراہم کیا جو برطانیہ سمیت دیگر اتحادی قوتوں کی معاونت کے باعث سنہ 1916 میں عرب بغاوت کی شکل میں پورا ہوا۔

سنہ 1917 میں اینگلو عرب افواج نے اس خطے کا کنٹرول سنبھال لیا جس میں فسلطین کا علاقہ بھی شامل تھا اور سنہ 1921 میں فلسطین کو اس خطے سے الگ کر کے ’ٹرانس جارڈن‘ کی بنیاد رکھی گئی اور عبداللہ جو بعد میں اُردن کے پہلے بادشاہ بنے، کو حکمرانی سونپ دی گئی۔

برطانیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ مکہ کے امیر شریف حسین بن علی سے متنازع بیلفور ڈیکلریشن پر دستخط کروانے اور اس کے عوض ایک بھاری رقم دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ مانے۔ اس کے بعد اتحادی ممالک کی جانب آلِ سعود کے ساتھ اتحاد کر لیا گیا۔

بیلفور ڈیکلریشن دراصل برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو یہودیوں کی رہائش کے لیے ایک ملک فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا متنازع دستاویز تھا۔

سنہ 1946 تک اس خطے پر برطانیہ کے زیرِ انتظام حکومت چلتی رہی تاہم سنہ 1946 میں یہ ایک خودمختار ریاست بنی اور اسے ’المملکت الاردنیۃ الہاشمیۃ‘ کہا جانے لگا۔

سنہ 1948 سے 1973 کے درمیان اُردن اسرائیل سے چار جنگیں لڑ چکا ہے جن میں پہلی عرب اسرائیل جنگ 1948، 1967 کی جنگ حرب، 1967 سے 70 کے درمیان لڑی گئی حرب الاستنزاف اور 1973 کی یوم کپور جنگ شامل ہیں۔

تاہم امریکی صدر بِل کلنٹن کے دور حکومت میں سنہ 1994 میں اُردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے باعث کبھی کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوا۔

حکومتِ اردن کی ویب سائٹ کے مطابق اردن کے جھنڈے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے، یہ جھنڈے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے جھنڈے سے متاثر ہے۔

palestine
Getty Images

اس میں تین مختلف رنگ اور ایک سرخ رنگ کی مثلث یا تکون (ٹرائی اینگل) موجود ہے جبکہ جھنڈے پر سات کونوں والا ستارہ بھی موجود ہے۔

اس ستارے کا ہر ایک کنارہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی پہلی سورۃ سورۃ الفاتحہ کی سات آیات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ستارہ ہی اس جھنڈے کو فلسطین کے جھنڈے سے الگ کرتا ہے۔

جھنڈے پر موجود سرخ تکون یا ٹرائی اینگل جبکہ تین مستطیل (ریکٹینگلز) اردن کی تاریخ میں اس پار حکمرانی کرنے والی تین خلافتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سیاہ مستطیل خلافتِ عباسیہ، سفید خلافتِ بنو امیہ جبکہ سبز خلافتِ فاطمیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.